سیاسی عدم استحکام اور پولرائزیشن نے 2023 کے عام انتخابات پر بے یقینی کے سائے ڈالے ہوئے ہیں ۔ یقینی طور پر عام انتخابات وقت مقررہ ہونے چاہئیں لیکن الیکشن کا انعقاد 60یا 90کے دنوں کی سیاسی شطرنچ میں الجھا ہوا ہے ۔ مسلم لیگ نواز کے وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت اپریل 2022 میں تحریک انصاف کے چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد اقتدار میں آئی۔ تب سے، ریاست، حکومت اور فوج کے خلاف ایک پراپیگنڈا اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ۔ زمینی حقائق تو عوام کے ووٹ کے شفاف اور غیر جانبدارنہ انتخاب پر طے پائیں گے کیونکہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاست میں مداخلت کا الزامات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بھی کیا گیا ، اور ریاست پر دبائو ڈالنے کیلئے ہر حکمت عملی استعمال کی ، عمران خان نے تحریک انصاف کو بنی گالا ، اور زمان پارک کی تنظیم بنا دیا ہے ۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردیں لیکن جذباتی عمل نے انہیں اپنے ان قابل اعتماد ساتھیو ں نے مائنس کردیا ، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ جب ماضی کی طرح عمران خان عوامی جلسے کریں گے تو ان کا بیانیہ کیا ہوگا ، دیگر جماعتوں کی طرح ان کی جماعت کو ذرائع ابلاغ میں اپنے منشور بتانے کی اجازت ہوگی یا نہیں ، یہ تو آنیوالا وقت ہی ثابت کرے گا ۔ حکومت نے9مئی واقعات پر کریک ڈائون کیا جس سے عملی طور پر پی ٹی آئی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے پہلی دستیاب فلائٹ سے پیا دیس سدھارگئے۔ سیاسی طور پر اس موقع کو پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا اور عمران خان اور ان کی پارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور ان کے خلاف قانونی مقدمات درج کر کے تخت لاہور کو سب نے حاصل کرنے کے کو شش کی ۔ سیاسی صورتحال کشیدہ اور غیر متوقع ہے، اور تشدد یا آئینی بحران میں بڑھ رہاہے۔ توقع تو یہی تھی ہے کہ انتخابات اکتوبر 2023 تک ہوں گے، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان قریبی مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔تاہم 10اگست تک حکومت تحلیل کرنے فیصلہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کو یہ تحفظات ہیں کہ ستمبر میں ایک بڑی شخصیت اپنی مدت ملازمت مکمل کرلے گی تاہم اس دوران با دل نخواستہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اقتصادی بحران میں آئی ایم ایف سے ایمرجنسی معاہدے سے ملک دسمبر تک دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا ہے ، تمام سیاسی جماعتوں ، اداروں کی مکمل توجہ بھی عام انتخابات پر مبذول ہیں۔ پاکستان کی معیشت مہینوں سے انتہائی تشویشناک حالت میں ہے، جس میں افراط زر، کم شرح نمو، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، روپے کی گرتی ہوئی کمی اور غیر ملکی ذخائر میں کمی کا سامنا ہے۔ ملک اپنے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں میں نادہندہ ہونے کے خطرے سے ابھی بھی دوچار ہے، اور اسے پانچ سالوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے اپنا دوسرا بیل آؤٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ معاشی بحران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صحت کے نظام اور لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کو شدید نقصان پہنچا۔ حکومت کو اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے انتظام میں شفافیت کے لئے لینے پڑے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک اہم منصوبہ ہے، جس میں پورے پاکستان میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔انتہا پسندی اور سلامتی کے لئے ریاست کو حالیہ برسوں میں عسکریت پسند گروپوں اور دہشت گرد نیٹ ورکس کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔ شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری کے لئے مسلح افواج مسلسل قربانیاں دیں رہیں۔ تاہم، ملک کو اب بھی مختلف انتہا پسند گروپوں، جیسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP)، اسلامک اسٹیٹ (IS) اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے خطرات کا سامنا ہے۔ ان گروہوں نے انتخابی مہم کے دوران کئی مہلک حملے کیے تھے جن میں امیدواروں اور حامیوں سمیت 180 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ سب سے زیادہ تباہ کن حملہ جب ایک خودکش بمبار نے مستونگ ضلع میں بلوچستان عوامی پارٹی کی انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا، جس میں 149 افرادجاں بحق ہوئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا۔پاکستان کے اپنے پڑوسیوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مختلف عوامل، جیسے سرحدی تنازعات، سرحد پار دہشت گردی، تجارتی رکاوٹوں اور جغرافیائی سیاسی دشمنیوں کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خاص طور پر 2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے نتیجے میں بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے کشیدہ ہیں، جس نے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی، جس سے متنازع علاقے میں مظاہرے اور تشدد پھوٹ پڑا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی بداعتمادی اور کالعدم ٹی ٹی پی کی شورش کی مداخلت اور حمایت کے الزامات سے بھرے ہوئے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات نے کئی دہائیوں سے جاری تنازع کے خاتمے کی امیدیں تو پیدا کی ہیں، لیکن افغانستان میں پاکستان کے کردار اور مفادات کے لیے بھی چیلنجز پیدا کیے ۔ پاکستان کو بہت سے سماجی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کی ترقی اور استحکام کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ غربت، ناخواندگی، بدعنوانی، صنفی عدم مساوات، آبادی میں اضافہ، ماحولیاتی انحطاط، پانی کی کمی، شامل ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی 24 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ 22 فیصد ناخواندہ ہیں۔ معاشرے کے تمام شعبوں میں بدعنوانی عروج پر ہے، جبکہ صنفی عدم مساوات خواتین کی خواندگی جیسے اشاریوں سے ظاہر ہوتی ہے۔نا قابل تردید شواہد کے بعد سوال اب بھی یہی ہے کی کیا عام انتخابات کے انعقاد کا خطرہ ٹل چکا ہے؟۔