پاکستان نے دہشت گرد حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھا دیا ہے ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے جڑی تنظیموں سے سنگین نوعیت کے خطرات درپیش ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا ہے، اسی بناء پر پاکستان نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی نہ صرف افغانستان بلکہ خطہ کے لیے خطرہ ہے۔ خطے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے جو بے چینی پیدا ہو رہی ہے یہ امریکا اور برطانیہ سمیت تمام بڑے ملکوں اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہونی چاہیے ، اگر دہشت گردی کی لعنت پر قابو نہ پایا گیا تو یہ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ امریکا سمیت دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں، ہم انہی کالموں میں مسلسل لکھتے آ رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت افغانستان میں موجود زیادہ تر دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی تشکیل میں کئی اہم اور طاقتور ممالک نے کردار ادا کیا تھا، اب ان گروہوں اور تنظیموں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اکٹھا ہونا چاہئے۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد پاکستان کی کوششوں سے افغان عبوری حکومت وجود میں آئی، طالبان حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا ساتھ دیں گے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ سے جدید فوجی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان کے راستے پاکستان میں جدید فوجی اسلحہ سے دہشت گرد کاررائیوں میں اضافہ ہوا، جولائی 2023ء کو ژوب گیریژن پر حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے امریکی اسلحے کا استعمال کیا گیا جس سے سخت جانی و مالی نقصان ہوااور یہ بھی دیکھئے کہ 6 ستمبر کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی دہشت گردوں نے چترال میں دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا، دہشت گردی کے واقعات کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے، 4 نومبر کو میانوالی ائیر بیس پر ہونے والے حملے میں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ غیر ملکی ساخت کا تھا جس میں آر پی جی 7، اے کے 74، ایم فور اور ایم 16 اے فور بھی شامل ہیں۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا ہے کہ 12 دسمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں چیک پوسٹ پر دہشت گرد حملے میں بھی نائٹ وژن گوگلز اور امریکی رائفلز کا استعمال کیا گیا، 15 دسمبر کو ٹانک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں دہشت گروں کے پاس جدید امریکی اسلحہ پایا گیا، 13 دسمبر کو افغانستان سے پاکستان آنے والی گاڑی سے پیاز کی بوریوں سے جدید امریکی ہتھیار برآمد ہوئے۔ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی وجہ سے بلوچستان میں بھی حالات خراب ہوئے ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے انہی ہتھیاروں سے فروری 2022ء میں نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کیمپوں پر حملے کیے۔ ٹانک ڈی آئی خان میں دہشت گردی کے متعلق ہم مسلسل لکھتے آ رہے ہیں ، اب اس کی تصدیق عالمی میڈیا بھی کر رہا ہے۔ یورو ایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے، پینٹاگون کے مطابق، امریکا نے افغان فوج کو کل 4لاکھ 27 ہزار جنگی ہتھیار فراہم کیے جن میں سے 3 لاکھ انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بناء پر خطے میں گزشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا نے 2005ء سے اگست 2021ء کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا یہ اور دیگر حالات و واقعات اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ دہشت گرد درہ گومل کے راستے آتے جاتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں ان کے سہولت کار موجود ہوتے ہیں، سرائیکی وسیب چونکہ صدیوں سے افغانستان کی دہشت گردی اور لوٹ مار کا شکار ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے درست کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا تعلق پشتون کمیونٹی سے ہے ، ان کا یہ کہنا اہمیت کا حامل ہے کہ فغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں نگراں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔ افغانستان کی طرف سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تصدیق کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے اس وقت کی جب انہوں نے گزشتہ روز 70 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔ سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی اور انتشار کے لیے بھارت فنڈنگ کر رہا ہے، افغانستان جا کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علیحدگی پسند بلوچ لیڈر اپنی ذات اور پیسے کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔یہ کوئی بہت بڑے انکشافات نہیں ہیں بلکہ اس کا سکیورٹی اداروں کو علم ہے، جو لوگ قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں ان کا خیر مقدم ہونا چاہئے اور اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ سادہ ، غریب اور ان پڑھ لوگوں کو قومی دھارے سے کون الگ کرتا ہے؟ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔