پاکستان میں 1985 سے لے کر آج تک جس قسم کا جمہوری تجربہ چل رہا ہے کبھی بھی ملک و قوم کے لیے ثمر بار نہیں ہوا اور نہ ہی آیندہ کسی بہتری کے امکانات ہیں کیونکہ نہ تو ہمارے سیاست دان ماضی سے کوئی سبق سیکھ کر سیاسی محاذ آرائی ختم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی وہ اپنی جماعتوں میں جمہوری اصلاحات لانے کے متمنی ہیں تا کہ ملک وقوم کو ارتقائی عمل سے با صلاحیت قیادت مل سکے۔ وہ اپنی جماعتوں میں موروثیت کو کسی صورت میں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں تو پھر ادارے کیسے ان کی گردنوں کو شکنجوں سے آزاد کرنے کا رسک لے سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہا تحریک انصاف کے امیدواروں کے لیے آنے والے الیکشن لڑنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ن لیگ کی جیت کا راستہ ہموار کیا گیا تو الیکشن میں دھاندلی سے جیتنے والوں کو کوئی نہیں قبول کرے گا اور ملک میں انارکی کا باعث بنے گا۔ عوام اپنے معاشی حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہے کہ اس کا اجتماعی غصہ کبھی نہ کبھی نکلنا ہی ہے۔ تاریخی جدلیات عمل کا منطقی نتیجہ جلد یا بدیر ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اس لیے ارباب بست و کشاد ملکی معاملات پر مجموعی قومی مفادات اور پاکستان کے عوام کی اکثریت کی امنگوں اور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرین۔جمہوری عمل کو صاف شفاف انتخابات کے ذریعے کامیاب بنایا جائے تو اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ اگر ہم پارلیمنٹ میں کٹھ پتلیاں ہوں گی اور انہیں ان کے قد کھاٹھ اور صلاحیت سے بڑے عہدوں پر مینج کر کے بٹھائیں گے تو پھرکیسے یہاں ارفع جمہوریت پنپ سکتی ہے۔ قانون اور آئین کی حکمرانی کا خواب پورا ہو سکتا ہے، کنٹرولڈ جمہوریت میں ارتقائی جمہوری عمل سے اداراتی اصلاح اور نظام کے مستحکم ہو نے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں اور سیاسی بحران کبھی ختم نہیں ہو پاتے ہیں ۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ محمد خان جونیجو کے بعد پاکستان بصیرت اور وژن کی حامل قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہمہ جہت چیلنجز سے دوچار ہے۔ طویل مارشل لاؤں، اور نا تجربہ کار اور کرپٹ جمہوری حکومتوں کی مجموعی نا کا میوں اورغلطیوں کی وجہ سے ہماری قومی زندگی میں اسقدر جھول اور کجیاں پیدا ہو چکی ہیں جس کی مثال ہمارے ارد گرد کسی جمہوری ملک میں نہیں ملتی۔ معاشی بربادی اور دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے عدم تحفظ، بے چینی، اور اضطراب نے لوگوں کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اگر کرنسی ڈیلرز کو نکیل ڈالی جا سکتہی ہے تو اس ملک اور عوام کو نقصان پہنچانے والے تمام مافیاز کو قابو کر کے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے ملک دشمن عناصر کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر مخلوق خدا کی زندگیوں میں آسانی لانے کی کوشش کی جاستی ہے۔ اب تو قائد اعظم سے انسیت رکھنے والے قاضی عیسیٰ کے صاحب کردار بیٹے قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے سے بہار کے امکانات روشن ہونے کے آثار دکھائی دینے کی واثق امید ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتوں کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کا فری اور فیئر موقع دیا جائے۔سیاسیاختلافات پر سیاسی ورکرز، دانشوروں اور صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو ہر حال میں تحفظ ملنا چاہیے اور سیاسی قیدیوں کاعدالتوں میں آئین اور قانون کے مطابق ٹرائل ہونا چاہیے۔کسی بھی محب وطن پاکستانی کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ پاکستانی فوج کے حوالے سے ہرزہ سرائی کا مرتکب ہو چاہے ان کے لیڈر اداروں کے خلاف کوئی بھی بیانیہ بنانے کا خواہاں کیوں نہ ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور نچلے درجے کی قیادت کو اپنی پارٹی کے ان سرگرمیوں کے ساتھ نہیں کھڑا ہو نا ہے جو اداروں کو کمزور کر کے دشمنوں کا کام آسان کریں۔پاکستان ہے تو سیاست اور ادارے ہیں ۔لہذا ہر ایک کو پاکستان اور عوام کے مفاد کو مقدم رکھنا ہے مگر اس طرح نہیں کہ جیسے پاکستان کے لیے شہباز شریف اپنے کپڑے بیچنے کی بات کر کے عوام کے کپڑے اتار کر بیچ گئے۔ اگر میاں نواز شریف ملک سے مخلص ہوتے تو مفتاح اسماعیل کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ہاتھوں لٹیا نہ ڈبوتے اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں ہمیں ناک کی لکیریں نکال کر سخت ترین شرائط پر دوبارہ سمجھوتہ نہ کرنا پڑتا ۔اب کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے کہ انتخابات تمام بڑی جماعتوں کے کسی متفق علیہ نظام اور سیاسی کشیدگی کے بغیر ہوں اور اگر کوئی نا مانوس اجنبی وزیر اعظم بن گیا تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ نئی حکومت کے آنے سے عوام کو دو وقت کی روٹی کھانے کو مل جائے گی، تعلیم، صحت، پٹرول اور بجلی کے بل وہ افورذ کر پائیں گے۔ یا ریاست ماں بن کر فلاحی ریاست کا روپ دھارتے ہوئے ہیلتھ کارڈز اور پناہ گاہوں کے نظام کو دوبارہ چالو کر دے گی ۔لیکن ہم بھی کن سیاست دانوں کو سنا رہے ہیںجن کی ترجیح غربت کی بجائے غریب کو ختم کرنا ہے مگر غریب بھی بڑا ڈھیٹ ہے دھڑا دھڑ غریبوں کو پیدا کیے جارہا ہے ۔حکمران طبقہ بے حسی کے اس درجے پر پہنچ چکا جہاں انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس ملک میں چہرے بدلتے ہیں مگر نظام نہیں بدلتا ہے اور نہ ہی کبھی بدلے گا کیونکہ جس جس طبقے کو سٹیس کو سے فوائد ملتے ہیں وہ کیوں ساختی تبدیلی کے لیے سنجیدہ کوشش کر ے گا۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے شہباز شریف کی طرح حبیب جالب کے اشعار پڑھ کر اور غریبوں کا لیڈر بننے کا ڈرامہ کر کے فلاحی تبدیلیوںکے راستے روک دے گا۔ غریب پاکستانی کی طویل مشقت سے اسکا سفر زیست تمام ہو جاتا ہے مگر نسلوں کے سفر کے فاصلے کم ہونے کا نام ہی لیتے کیونکہ منزل ان کو ملتی ہے جو شریک سفر ہی نہیں ہوتے ۔ عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں ٭٭٭٭٭