قطر 1971ء میں آزاد ہوا اور اسی سال حکمرانوں کی غلط پالیسی اور ذاتی مفادات کی بدولت متحدہ پاکستان کا مشرقی حصہ ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔آج وہی بنگلہ دیش معاشی اعتباد سے ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ قبل ازیں پاکستان کے معاشی منصوبہ جات کو ملائشیا ئ، سنگا پور جیسے ممالک مستعار لیا کرتے تھے۔ قارئین کے لئے شاید یہ اچنبھے کی بات ہو مگر 1960ء تک پاکستان جرمنی اور 1980ء تک پاکستان چین جیسے ممالک کو قرضہ فراہم کیا کرتا تھا۔ یعنی پاکستان اس قدر طاقتور ملک ہوا کرتا تھا کہ دنیا ہماری عزت کیا کرتی تھی اور ہمارا رعب اور دبدبہ عالمی منظر نامہ پر قائم تھا۔اور اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ جب بھی ہمارے وزرائے اعظم دیگر ممالک میں جاتے ہیں تومیزبان ملک کے سربراہ کو پورا یقین ہوتا ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پاکستان کا وزیراعظم کمال مہربانی یا ڈھٹائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہاتھ پھیلائے گا۔ یقین جانئے ہم نے آج تک کسی بھی طاقتور میزبان ملک کے سربراہ کے اندازے کو غلط ثابت نہیں ہونے دیا بلکہ ہم اْن کی اْمیدوں پر پورا اْترتے ہیں۔اس حوالے سے پچھلے دِنوں موجودہ وزیراعظم پاکستان سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ سابق وزیراعظم پاکستان آپ (موجودہ وزیراعظم) کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ بھکاری ہیں اور جب بھی باہر کسی دورے پر جاتے ہیں تو بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ جس پر موجودہ وزیراعظم پاکستان نے برجستہ جواب دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا تو’جب وہ (سابق وزیراعظم) باہر کسی ملک جایا کرتے تھے تو کیا وہ پیسے بانٹنے جاتے تھے؟۔ بہاولپور سے ایک عزیز دوست جنابِ عذیر احمد چودھری نے واٹس ایپ پر ایک لطیفہ بھیجا جو شاید موجودہ حالات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ کہتے ہیں۔ ’’امانت چن اکثر ڈراموں میں کہتا ہے۔۔میں بڑے کاروبار کیتے(کیئے) میں نے ایک سانپ اور ایک بین لی‘میں سانپ لوگوں کے گھروں میں پھینکتا اور بِین بجا کر سانپ پکڑنے کا پانچ سو روپیہ لیتا۔ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے سانپ پھینکا اور پھر گھر والوں کے کہنے پر بِین بجائی تو اندر سے دو سانپ نکل آئے اب گھر والوں نے مْجھے کہا کہ پائی جی سپ پھڑو(بھائی جان سانپ پکڑیں)۔ میں نے کہا میں اپنا سپ پھڑنا واں تْسی اپنا پھڑو(میں اپنا سانپ پکڑتا ہوں، آپ اپنا پکڑیں)۔ ایسا ہی کچھ حکومت اور صاحب بہادر کے ساتھ ہوا ہے۔۔طے تو یہ ہوا تھا کہ صاحب بہادر سابق وزیراعظم کو سنبھالیں گے اور حکومت معیشت کو سنبھالے گی۔ اب کرنی خْدا کی ایسی ہوئی کہ نہ صاحب بہادرسابق وزیراعظم کو پکڑ سکے اور نہ حکومت معیشت کو۔ اب دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں۔۔۔پائی جی اسی اپنا پھڑنے آں، تسی اپنا پھڑو‘۔ بظاہر تو یہ ایک لطیفہ ہے مگر یہ سچ مچ ہماری چھتر سالہ تاریخ کی داستانِ الم ہے۔ قطر جو اکہتر میں آزاد ہوا آج دنیا کے بائیس ویں ورلڈ کپ کی میزبانی کررہا ہے جب کہ ہمارا ملک جو 1947ء میں آزاد ہوا وہ آج بھی اپنا بجٹ پیش کرنے کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں جس انداز میں امیر ِ قطر تمیم بن حماد التھانی نے عربی زبان میں تقریر کی اور دنیاکے کئی سربراہان کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا وہ یقیناًََقابلِ تعریف مرحلہ تھا۔ افتتاحی تقریب کا آغاز قرآن مجید کی اس آیت سے ہوا جس میں اللہ کے خالق ہونے،ہم آہنگی، اتحاد، مساوات اور تقوی کا حکم ہے۔فیفاورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں آسکر یافتہ ہالی وڈ اداکار مورگن فریمین کو دیکھ کر جہاں سب حیران ہوئے۔ٹھیک اسی لمحہ اس موقع پر ٹانگوؤں سے معذور قطری قاری، یوٹیوبر اور عالمی کپ ایمبیسیڈر غانم المفتاح اور مورگن کے دلچسپ گفت گو نے پوری دنیا میں اسلام کا خوبصورت پیغام پانچ سو ٹیلی ویژن چینل نے پر براہِ راست دکھایا۔ دونوں عالمی شہرت یافتہ افراد کے درمیان دلچسپ گفتگو کا آغاز کچھ ہوں ہوا کہ غانم نے مورگن کو مدعو کیا جس پر مورگن نے سوال کیا کہ ’کیا مجھے بھی یہاں خوش آمدید کہا جائے گا؟‘ جس پر غانم نے کہا کہ ’یہ دعوت نامہ پوری دنیا کے لیے ہے۔ یہاں سب مدعو ہیں‘۔ معروف ہالی وڈ اداکار مورگن فریمین نے سوال کیا ’کہ اب دنیا دور ہو چکی ہے اور تقسیم بھی۔ سب ممالک مختلف، زبانیں اور ثقافت بھی مختلف ہے‘۔ اس پر معذور بچے غانم المفتاح نے قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی جس کا ترجمہ کم و بیش کچھ یوں ہے۔: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہارے قبیلے اور کنبے بنا دیے تاکہ تمہاری پہچان ہو۔ لیکن تم میں سے زیادہ محترم و مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ اور اللہ علیم و خبیر ہے‘۔ غانم کی تلاوت نے فیفا کی افتتاحی تقریب میں سماں باندھ دیا، ساتھ ہی یہ پہلا عالمی کپ بھی بن گیا جس کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا گیا۔بعدازاں مورگن فریمین نے اختتامیہ کلمات میں کہا کہ ’فٹبال کھیل سے محبت مختلف ممالک کو یکجا کردیتی ہے اور اس طرح مختلف ثقافتوں کی اقوام بھی اس موقع پر ایک ہوجاتی ہیں‘۔ اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا بھر میں پہنچانے کا یہ اعزا ز قطر جیسے ایک ایسے چھوٹے ملک کو حاصل ہوا ہے جس کی اسی فیصد آبادی ملک کے درالحکومت دوحہ میں رہتی ہے اور جس کی سرحد واحد عرب ملک سعودی عرب سے ملتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو دودہائیاں قبل محض جزیرہ نما تھا جہاں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات میسر نہ تھیں۔ پھر اِس ملک میں تیل (کالاسونا) نکل آیا، حکمرانوں نے اپنے ملک و قوم سے وفاداری نبھائی، انہوں نے اس کالے سونے کو ذاتی مفادات اور عیش و عشرت کی بجائے ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ نتیجتاً ملک آپ ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگا اور عوام و حکمران خوش حال۔ عوام کو حکمرانوں سے اور نہ ہی حکمرانوں کو عوام سے کوئی شکوہ و شکایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قطری حکمرانوں نے اِ س چھوٹے سے ملک کو محض دو دہائیوں میں دنیا کا محور بنادیا اور یہاں دنیا کا سب سے بڑا اجتماع (فیفاورلڈ کپ) یہاں ہو رہا ہے جبکہ ہماری بدقستمی یہ ہے کہ پاکستانی عوام ہر سیاسی لیڈر اور ہر سربراہ حکومت پر اعتماد کرتے ہیں اور وہی سربراہ عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتا ہے۔