پروین رحمان اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر اختر حمید خان کی وراثت سنبھالنے والی ان کے سب سے قابل اور بہادر شاگرد ، پاکستانیوں پر اپنی جان نچھاور کرنے والی ایک عظیم خاتون تھیں۔وہ پاکستان کی محسن تھی اور ہم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کرتے ہیں۔محمود شام کا ایک شعر ہمارے اسی سماجی زوال کی طرف اشارہ ہے جتنے محسن تھے سبھی راندہ درگاہ کیے ہم سے احسان کسی کے بھی اٹھائے نہ گئے سندھ ہائی کورٹ نے غریبوں کی محسنہ محترمہ پروین رحمان کے مبینہ قاتلوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے اور کہا ہے کہ مدعی مقدمہ کے وکلا ٹھوس شواہد پیش نہیںکر سکے ۔اب شاید بہت سے لوگ پروین رحمان کو بھی نہ جانتے ہوں۔اس میں ایسی حیرت کیا کہ ہم احسان فراموش قوم ہیں ہم اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کے ہنر سے عاری قوم ہیں۔محسن کشی ہماری روایت بن چکی ہے۔ اس شہر میں حکیم سعید کو دن دہاڑے قتل کیا گیا ان کی سفید شیروانی کو ان کے اپنے ہی لہو میں نہلا دیا گیا گیا، اسی شہر میں پروین رحمان کو بھی مار دیا گیا۔پروین رحمان 1957کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں اور سقوط ڈھاکہ کے بعد پروین رحمان اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آ گئیں تھیں ،ان کے سفاکانہ قتل کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ بھی پروین رحمان کا جرم شمار ہوتا تھا کہ وہ ایک بہاری عورت ہیں۔ انہیں یہ قابل قبول نہیں تھا کہ ایک بہاری عورت ان علاقوں میں جہاں پشتونوں کا اثرورسوخ ہے وہاں ایک بڑے پراجیکٹ کی ڈائریکٹر ہوں اور لوگ انہیں مسیحا مانیں۔پروین کا جرم یہ بھی تھا کہ اس نے کراچی کے مضافات میں بکھرے ہوئے کم و بیش دو ہزار گھوٹوں پر قبضہ کرکے بیچنے والے قبضہ مافیا کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔محترمہ پروین رحمان ڈاکٹر اختر حمید خان کی سب سے قابل اور سب سے کمیٹڈ شاگرد تھیں۔وہ اپنے عظیم استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ پر کام کرتی رہیں۔ ڈاکٹر اختر حمید خان نے1980میں کراچی کی کچی آبادی میں رہنے والے ہزاروں غریبوں کے لئے ان کی زندگی بدلنے کا ایک شاندار منصوبہ شروع کیا تھا جسے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کا نام دیا گیا۔ کراچی ایک کاسموپولیٹن شہر ہے۔ پاکستان بھر سے روزی کمانے والے غریب کراچی کا رخ کرتے ہیں اور کراچی ان غریبوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے کراچی کی آبادی کا 60 فیصد حصہ ان کچی آبادیوں میں رہتا ہے یہ کچی آبادیاں بغیر کسی منصوبے کے بسائی ہوئی ہوتی ہیں یہاں کے بسنے والو ں کو سیوریج کے نظام سے لے کر صحت ،تعلیم اور بنیادی سماجی شعور کے فقدان جیسے اہم مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پروین رحمان نے آرکیٹیکچر اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی ،اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی خاطر انہوں نے اپنی شاندار نوکری کو چھوڑا اور پھر وہ اورنگی والوں کی ہو ہیں۔انہوں نے اپنی ساری زندگی اورنگی کے لوگوں کے نام کردی۔وہ اورنگی کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں ایک جانا پہچانا نام تھیں۔پروین رحمان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سماجی شعور کا کام اورنگی کی ان پڑھ خواتین سے شروع کیا۔انہیں اس بات کا یقین تھا کہ اگر وہ کچی آبادیوں کی ان غیر تعلیم یافتہ ماؤں کو سماجی شعور دے دیں تو اس کا اثر ان کے گھرانے پر اور پھر پورے علاقے پر ہوگا۔پروین رحمان نے ، انہیں اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کا احساس دلایا۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے تحت کچی آبادی کی سینیٹیشن کے نظام کو بہتر کیا، وہاں سیوریج سسٹم بنایا اس کے ساتھ ساتھ وہاں عورتوں کے گھر کے ادارے بنائے سلائی سکول قائم کیے۔ شعور پیدا کیا کہ وہ خود بھی کمانا شروع کریں۔ انہیں بچت پروگرام کا حصہ بنایا تاکہ وہ اپنی کمائی سے بچت کرکے اسے رقم کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے۔خرچ کرسکیں اس طرح انہیں معاشی طور پر ایمپاورمنٹ کا احساس دلایا۔پروین رحمان جیسے لوگ معاشرے ان سنگ ہیرو کہلاتے ہیں ۔پروین رحمان نے اپنی پوری زندگی کراچی کے غریب ترین علاقے اورنگی میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو سہولت آمیز کرنے میں گزار دیں۔پروین رحمٰن نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں زمینوں۔ڈاکومینٹیشن پر کام کرنا شروع کیا۔یہ وہ بھاری پتھر تھا جسے بڑے بڑے ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے تھے۔۔قبضہ مافیا میں ایسے لوگوں کے نام آتے تھے جن سے حکومتیں بھی دہلتی تھیں لیکن پروین رحمان نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ سچ کو سامنے لا کر رہیں گی۔کراچی میں قبضہ مافیا آپ بہت طاقتور ہے، زمین کی ڈاکومنٹیشن کرکے طاقتور قبضہ مافیا کے کرتوت سامنے لانا اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھااور اس کام کے دوران کراچی کے قبضہ مافیا کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات ہورہے تھے ۔ محترمہ پروین رحمان نے جب کراچی کے مضافات کے گوٹھوں پر قبضہ کرنے والوں کے حوالے سے کام شروع کیا تو ان کو بہت دھمکیاں دی گئیں۔انہیں کہا گیا کہ وہ اس پراجیکٹ سے پیچھے ہٹ جائیں ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن پروین رحمان اپنی دھن کی پکی تھیں وہ بہادر اور جی دار تھیں۔اپنے کام سے ان کی کمٹمنٹ بے مثال تھی۔یہ کام ہی ایسا تھا کہ ان کی جان کو خطرات لاحق تھے، انہیں دھمکیاں دی گئیں لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں ۔تیرہ مارچ کی شام جب وہ دن بھر کے کام کے بعد تھکن اوڑھے اپنے گھر واپس جا رہی تھی تو راستے میں قاتلوں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، انہیں عباسی شہید ہسپتال لے جایا گیا۔ لہولہان پروین نے اسپتال میںآخری سانسیں لیں۔ پروین کی موت کی خبر سے اورنگی کے رہنے والوں پر قیامت گذر گئی۔کورنگی والوں کیلئے تو وہ زندگی اور امید کا دوسرا نام تھیں، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کیسے ظلم گزیدہ معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں پروین رحمان جیسے عظیم پاکستانی ،بے مثال محسن قتل کردئیے جاتے ہیں اورعدالتیں قاتلوں کو شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر رہا کردیتی ہیں۔ تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے