جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے آبلے بھی پائوں کے پھوٹ پھوٹ رو دیے اور پھر کہاں تلک ہم سحاب دیکھتے پیہم سفر نے ہمیں تھکا دیا۔’’اختتام سفر کھلا ہم پر وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ۔اور پھر ہماری تلاش بھی نہ پوچھیے اپنی پور پور میں باس ہے بسی ہوئی خار خار ہو گئے ہم گلاب دیکھتے۔اپنے اس عہد بے اماں میں ایک سربسراداسی ہے لوگ ترس گئے ہیں کہ کہیں سچائی کی شکل نظر آئے کہ کوئی خوش کن لمحہ ان کے ہاتھ میں آئے۔ میں نے ایک شعر پوسٹ کیا مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی۔میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی۔ اس پر اداس لوگوں کے کمنٹس آبشار کی طرح گرنے لگے۔مجھے اپنے دوست عدیم ہاشمی یاد آ گئے: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر اب تو ویسے بھی آبرو اور عزت کے مسائل نہیں انائوں کا مسئلہ ہے پھر عدیم سامنے آ گئے: ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہے کس نے دیوار اٹھا دی میری دیوار کے ساتھ دل بجھ سا گیا اور اب یہ ہوا سے جلنے کا والا نہیں۔بے حیائی کا دور دورہ ہے۔مجھے اس طرف جانا بھی نہیں ایک بات یاد ہے ایک مرتبہ میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے دفتر میں بیٹھا تھا گفتگو میں کچھ دوست غیر محتاط ہوئے۔ایک آدھ جملہ ہماری زبان سے بھی سرزد ہوا۔پاس بیٹھی منصورہ احمد نے کہا اللہ پردہ رکھنے والا ہے مجھ پہ یہ فقرہ کسی بم کی طرح گرا اور پھر میں نے زندگی بھر کے لئے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ احتیاط ہی برتی جائے گی جب اللہ پردہ رکھنے والا ہے تو یہ وصف آسان کا ہو جائے تو کیا عظمت ہے۔ اب جو سوشل میڈیا پر گندی ویڈیوز اور آڈیوز کا دور دورہ ہے ہر دوسرا کلپ یہی ہے اس بے حیائی کا تصور بھی اس سے پہلے نہیں تھا شاید مغربی کلچر میں بھی اتنی بے باکی نہ ہو۔ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پوری نسل جو پہلے ہی تیز ٹیکنالوجی کے باعث باشعور اور سمجھدار ہو چکی ہے وہ ان ویڈیوز سے کیا اخذ کرے گی۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ تو جیسے پوری انڈسٹری ہے اسی لئے تو یہاں قصور جیسا واقعہ ہو تو بھی کوئی سزا نہیں ملتی۔یہ دھندہ تو رہنما اور لیڈر بھی کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک کھانے پر ن لیگ کے ایک وزیر بڑے خفیہ انداز میں کہنے لگے کہ یار وہ کام جو پیپلز پارٹی کے لوگ سرعام کرتے ہیں وہ ہم چھپ کر کرتے ہیں اس پر سب قہقہہ بار ہو گئے اب انہیں کام بتانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اس کلپ نے لوگوں کے ہوش اڑا دیے فلاں نے تہلکہ مچا دیا آپ یقین کی جائے یہ ایک انداز سے فالورز بڑھانے کا وگرنہ کسی کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ہیں قوم کا خون چوسنے والے ان کے نام پر باہر سے قرضے لینے اور پھر اس سے اپنی جائیدادیں بنانے والے اور پرلے درجے بلیک میلر۔ ذرا دیکھیے شاہد حسن کا شعر: تو سربام ہوا بن کے گزرا کیوں ہے میرے ملبوس کی عادت نہیں لہرا جانا کمال تو یہ ہے کہ اکثران میں سے پہلے کسی کردار کے حامل نہیں۔پھر بھی کچھ اگر ہے تو وہ بھی رہنے نہیں دیا جا رہا۔ اب ہوا کیا ہے ایک جہان آرزو کھل گیا ہے نہیں نہیں سچ کہوں تو کوئی اس کی گٹر سے مثال دیا جا سکتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ ہم کیا سننا چاہتے ہیں اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں چینلز والوں کی تو جیسے لاٹری نکل آئی۔اس گنگا میں ہر کوئی ڈبکیاں کھا رہا ہے۔اخلاقی دیوالیہ اور کس کو کہتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ آڈیوز وغیرہ پر تبصرہ کرنے والے آغاز میں کہہ رہے ہیں ان آڈیوز کو عورتیں اور بچے نہ دیکھیں گویا کہ وہ سسپنس پیدا کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر کسی کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے ہر ایک اسے مرچ مسالہ لگا رہا ہے کچھ عرصہ پہلے تشہیری مہم بھی تھی اور تو اور جن کے بارے میں یہ کلپس ہیں وہ بھی پہلے ہی سب کو الرٹ کر چکے ہیں انور مسعود کی ایک لائن ذھن میں آ رہی تھی کہ کچھ تے ہٹی والیا توں وی پردہ رہن دے۔رہن دے توں رہن دے مومی لفافہ رہن دے کچھ باقی نہیں بچا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔موقع دیکھتے ہی لانے والے اپنا اپنا مال سربازار لے آئے کہیں جنرل رانی کے پرانے قصے سامنے آنے لگے اور کہیں پرانے معاشقے۔ ہمارے رہنمائوں کے بارے میں دوسرے لفظوں میں گند ہی پڑ گیا ہے بات یہ ہے کہ اس میں ٹائم بہت اہم ہے کہ انتخابات کے مطالبات اور چور ڈاکو والا اعلامیہ یا بیانیہ پیچھے رہ گیا کچھ کا کہنا ہے کہ دشمنوں کو اور کچھ نہیں ملا تو گندی آڈیوز سامنے لے آئے کچھ کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ فیک ہے۔ اور مزید کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ سب سچ بھی ہو تو ہم اپنے رہنما کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس معاملے کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟اور کون اس پر قابو پا سکتا ہے لگتا تو یوں ہے کہ جن کے پاس اس امر کی طاقت ہے یہ سب انہی کا کیا دھرا ہے آخر یہ ویڈیوز کیسے ریکارڈ ہوئیں دلچسپ یہ کہ سب کچھ سیاستدانوں کے حوالے سے ہے ابھی یہاں تک بس نہیں۔ شنید ہے کہ اب کچھ ویڈیوز آنے والی ہیں یعنی کچھ کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے گی ایک دو تو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جس میں انتہائی سنجیدہ سیاستدان ہیں ان کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں آخر میں تو یہی لکھا جا سکتا ہے کہ اب اللہ انہیں ہدایت دے۔ ویسے تو یہ لوگ جو اس کام میں ملوث ہیں وہ ناقابل اصلاح ہیں یہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ باقاعدہ میڈیا سیلز ہیں۔ٹرینڈ چلانے والے اب یہ خود بھی بھگت رہے ہیں کہ کائونٹر اٹیک ہو چکا ہے۔ شبیر حسین کا ایک شاندار شعر: زباں کا دھڑکا نہیں فکر آب و دانہ نہیں نگارخانہ چلاتا ہوں کارخانہ نہیں ٭٭٭٭٭