گزشتہ ہفتے سلطانہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سکول سے باہر بچوں کے متعلق ایک سمینار میں شرکت کا موقع ملا جہاں ڈھائی کڑور سے زائد بچوں کی تعلیم سے محرومی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات پر غور کیا گیا۔ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر مل کر اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟ مخیر اور پڑھے لکھے لوگوں کو کیا کردار ادا کر نا ہے؟ ان سب پہلوؤں پر ماہرین تعلیم نے سیر حاصل گفتگو کی۔ امید فورم کے مدار المہام بیگ راج نے بتایا کہ کہ پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد اس وقت تین کروڑ سے زائد ہے ان کی اکثریت نا مسائد حالات کی وجہ سے چا ئلڈ لیبر کا شکار ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جبکہ یو نیسکو کا کہنا ہے کہ ہر ملک کے لئے جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنا ضروری ہے۔ سلطانہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ندیم نعیم کا کہنا تھا کہ حکومت کو 70 ارب کے بجٹ کا کم از کم نصف پرائمری سطح پر بچوں کی تعلیم تربیت، نگہداشت اور ہنر مندی پر خرچ کر نا چاہیے ۔ یہ بچے تبھی ذمہ دار شہری بن پائیں گے اگر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر مل کر ان بچوں کی ذمہ داری اٹھائے گا وگرنہ ان بچوں کی اکثریت جرائم پیشہ بن سکتی ہے ۔ سکول سے باہر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے نوجوان محمد الخیام کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلام آباد میں 84000 بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ وزارت تعلیم نے ان کی سکولنگ کے لیے سنٹرز قائم کئے جن میں سینوے فیصد چند ماہ بعد ہی فنڈز کی عدم فراہمی پر بند کر دئیے گئے۔ وہ اپنی این جی او کے پلیٹ فارم سے 2 ہزار بچوں کو بنیاد ی تعلیم دے رہے ہیں۔ بریگیڈئر امجد نے بتایا کہ سلطانہ فاؤنڈیشن بھی اپنے بانی چیئرمین نعیم غنی مرحوم کے مشن کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہوئے سات سو سے زائد بچوں کو مفت غیر رسمی تعلیم دے رہی ہے۔ پا ئیڈ کے مطابق بے سکول بچوں کی سا ٹھ فیصد تعداد پانچ سے سولہ سال کے بچوں پر مشتمل ہے حالانکہ آئین پاکستان کی شق 25_ اے کے مطابق ریاست پاکستان کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ ہر بچے کو تعلیم دے۔ بدقسمتی سے 75 سال سے پبلک سیکٹر میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کئے گئے اقدامات عملاً ناکام ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ایک سلیبس اور یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی مگر وزارت تعلیم کے کرتا دھرتوں نے ناکام بنا دی کیونکہ سیکرٹری ایجوکیشن اور تمام بیوروکریٹس کے بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ کیوں قوم کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کی ضرورت محسوس کریں گے۔اگر ورلڈ بنک کی فنڈنگ مل جائے تو وہ 90 فیصد تنخواہوں اور مراعات پر خرچ کر دی جاتی ہے۔ اسلام آباد تک کے اکثر سکولوں میں بچے زمین پر بیٹھتے ہوتے ہیں۔ یونیسف کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق پرائمری سکولوں میں 10.7ملین لڑکے اور 86 ملین لڑکیوں نے داخلہ لیا اور اس سال کے آخر پر لڑکوں کی تعداد 3.6 ملین اور لڑکیوں کی تعداد 2.8 ملین رہ گئی ہے آدھے سے زیادہ بچے اساتذہکی سختی، غیر دلچسپ طریقہ تدریس اور معاشی حالات کی وجہ سے سکول چھوڑ گئیہیں۔ ورکشاپس اور ہوٹلوں پر چائلڈ لیبر اور جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیکنڈری سطح پر 16 فیصد مزید تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور دو فیصد جو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے نوے فیصد بیروزگاری کا شکار ہیں ۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں رانا تنویر اور موجودہ وزیر تعلیم جو ایک سندھی اخبار کے کالم نگار ہیں کیا تعلیم کے لیے سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے پالیسی ساز تعلیم سمیت تیکنیکی نوعیت کے شعبے ان بیورو کریٹس کے سپرد کر دیتے ہیں جن کا مطمح نظر محض اپنی مراعات ہوتا ہے وہ کچھ عرصہ ایک محکمے کا بیڑا غرق کر تے ہیں پھر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی وزارت تعلیم اور وفاقی ایچ ای سی سب آئینی طور پر غیر قانونی اربوں روپے کھا رہے ہیں اور آؤٹ پٹ ٹکے کی نہیں۔ ورلڈ بینک دہائی دے رہا وفاق تعلیم صحتکے محکمے کوصوبوں کو منتقل کرے مگر بیورو کریسی اور پالیسی سازوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ سلطانہ فاؤنڈیشن کی ریسرچ کے مطابق تقریباً 60 فیصد آؤٹ آف سکول بے وسیلہ بچے ملک کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں یہاں پر سکولز سرے سے نہیں ہیں اور اگر اکا دکا ہیں بھی تو اساتذہ اور انفراسٹرکچر سے محروم ہیں ۔اکثر پرائمری سکولوں کی عمارات پر وڈیروں کا قبضہ ہے۔ بچوں کی اکثریت کی تعلیم سے دوری کی بنیادی وجہ ان کی غربت ہے ان کے ماں باپ تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں سکولوں میں بھیجنے سے قاصر ہیں ان بچوں کی اکثریت گھروں دوکانوں ورکشاپس اور ہوٹلوں پو کام کاج کرنے پر مجبور ہے ۔ چھوٹے بچوں کی اکثریت کے ماں باپ کو پیسے دے کر وطن دشمنلے جاتے ہیں اور برین واشنگ کے ذریعے ان کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی خود کش حملے ہوئے ان بمباروں میں نو عمر بچے استعمال ہوئے چنانچہ ان سکولوں سے باہر تین کروڑ بچوں کی تعلیم تربیت اور نگہداشت حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے اگر ہم ان بے وسیلہ اور بے یارو مددگار بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ شفقت اور محبت کے جذبے کے تحت ان کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے تو پھر یہ بچے معاشرے میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور جرائم کا ٹائم بم بن کر پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنیںگے لہٰذا پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان نونہالان وطن کی آبیاری کی جا ئے ۔