ریاست مدینہ اللہ کی زمین پراللہ کے نظام کے عملی نفاذاورمکمل طورپراس مقدس نظام کے تحت زندگی گزارنے کا نام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضع وقائم کردہ یہ ایسی پاکیزہ ریاست کانام ہے کہ جس میں نظام صلوٰہ ونظام زکوٰہ ،ایسانظام عدل کہ دہلیز پہ مفت انصاف ،حقوق اللہ اورحقوق العباد، یتیموں ،مسکینوں، اقلیتوں اور خواتین سمیت تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کو اولیت حاصل ہے،جہاںکمزور اور طاقتور کے مابین توازن قائم ہے ۔رحمت للعالمین کے دست رحمت سے جس معاشرے میں مدینہ کی ریاست کی بنیاد رکھی گئی اس میں برائی اور ظلم وزیادتی، فحاشی وعریانی او سودخوری اور لوٹ مار کاخاتمہ ہوگیا ۔ اس مقدس ریاست میں ہر کارِ خیر اور نیکی فروغ پائی اور ہر برائی دم توڑ گئی۔ مسلم ممالک حکمرانوں کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ممالک کوریاست مدینہ کے نظام کے مطابق ڈھالیں۔جمہوری ممالک کہلانے والے مسلمان ممالک کے مسلم عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نمایندگان اوراپنے حکمران انکو چنیں کہ جوریاست مدینہ قائم کرنے کے لئے یکسوہوں۔ ہمارے ہاں ایک طرف تو ریاست مدینہ کے قیام کی باتیں ہو ں اوردوسری طرف زبان وبیان غیر شائستہ ہوتو ریاست مدینہ ایسی ریاست کیسے قائم کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کے آغاز میں مسجد کو بنیادی مرکز قرار دیا ، یہیں پر سیکرٹریٹ قائم ہوا جہاں پر فیصلے کیے جاتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے اس معاشی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے مواخات کا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے ایک طرف تو ایسے صحابہ کرام ؓ جن کی مالی حالت کمزور تھی وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوگئے دوسری طرف صحابہؓ انصاریوں اور مہاجرین کے درمیان محبت کی ایسی فضا پیدا ہوئی ہوئی جو ہمیشہ قائم رہی۔ اگر ان بنیادی اصولوں پر آج بھی عمل کیا جائے تو معاشرے کی حالت تبدیل کی جاسکتی ہے ۔معاشی مساوات کا ایک اہم اور بنیادی حکم سود کا خاتمہ تھا۔جس ک آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر باقاعدہ اعلان فرمایا۔ریاست مدینہ میں قانون کی یکساں عملداری ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر واضح طور پر ارشاد فرمادیا تھا کہ کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ریاست مدینہ میں کسی امیرآدمی کو قانون سے استثنیٰ حاصل نہ تھا۔چوری کے مقدمہ میں میں ایک معزز قبیلے کی خاتون ملزم نامزد ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے لیے بھی یہی قانون لاگو ہوتا۔ریاست مدینہ کے تمام شہریوں کو معاشی سرگرمیوں کے مساوی حقوق حاصل تھے۔ ریاست مدینہ میں تعلیم کابندوبست ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ہجرت سے قبل ہی معلم بنا کر مدینہ منورہ بھیج دیا۔اس لیے حضرت عبداللہ بن عاص اور حضرت عبادہ بن صامت ؓکو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام نے مختلف ممالک کی زبانیں سیکھیں۔خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بھی تربیت دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کا بنیادی اصول بھی بیان فرما دیا۔ اگر کسی کے خلاف شکایت ملتی تو اس پر سخت کارروائی بھی کی جاتی۔اسی طرح شہریوں کے معاملات کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی اور اگر کوئی شخص کس تجارتی اصول کی خلاف ورزی کرتا تو اس کو بھی سزا دی جاتی۔ریاست مدینہ کی سفارتی پالیسی تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات پر مبنی تھی۔قبائل کے ساتھ آپ نے جو معاہدہ کرتے اس کو پورا کرتے اور اگر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا تو اس کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی جاتی۔سفارتکاری کا اصول اور بنیادی نقطہ امربالمعروف اور نھی عن المنکر تھا۔سب لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا اور دین کی دعوت بنیادی اصول تھا۔ریاست مدینہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ احکامات کی مکمل عملداری قائم کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصول و ضوابط وضع فرمائے انکو کما حقہ نافذ کیا جائے۔ریاست مدینہ کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے تمام خلفائے راشدین نے نہ صرف اپنے شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا ۔ریاست مدینہ کی حدود عرب سے نکل کر عجم اور افریقہ تک وسیع ہوئیں۔لیکن ہر جگہ وہی اصول اور ضوابط کارفرما رہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے وضع فرمائے۔امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر حرف بحرف عمل کیا۔منکرین زکوٰۃ کے خلاف آپ کی جدوجہدضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔اور آپ کا یہ ارشاد آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی ایک رسی بھی بطور زکوۃ دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف بھی جہاد کروں گا۔آپ شہریوں کی خبر گیری کرتے رات کو مدینہ منورہ کا خود گشت فرماتے۔اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے۔ایک مرتبہ قحط سالی میں امیرالمومنین سیدناحضرت عمر فاروقؓنہ صرف ریاستی وسائل استعمال کرکے لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ سارے معاملات کی خود نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ بارش ہوئی اور اللہ تعالی نے وہ قحط ختم فرمایا۔یہی صورتحال امیرالمومنین سیدناحضرت عثمان غنیؓاور امیر المومنین سیدناحضرت علی ؓکے دور میں بھی رہی۔سیدناحضرت علیؓ امیر المومنین ہونے کے باوجود کئی دفعہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے۔قاضی نے انہیں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کے فیصلے کیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دیے تھے۔ جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تومدینہ طیبہ کے بعد دنیا کی واحد ریاست ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت وہی ہوگا جو چودہ سو سال پہلے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشکیل دیا تھا۔لیکن گذشتہ 74برسوں کے دوران پاکستان عملی طورپرریاست مدینہ کے مطابق ڈھل نہ سکا اوراس کے خدوخال انگریز کی دی ہوئی جمہوری نظام کے ساتھ ہی ہم آہنگ رہے ۔