پاکستان کی 75سالہ سیاسی تاریخ جمہوری اقدار کے تناظر میں شرمناک حد تک انحراف کا شکار رہی ہے۔یہ درست ہے کہ جمہوریت ایک سیاسی نظام کے طور پر اپنے سماجی ماحول سے اثر قبول کرتے ہوئے اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے اور پھر جوں جوں جمہوری سیاسی نظام آگے بڑھتا ہے سماجی تبدیلیوں کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔جمہوری سیاسی نظام کی پختگی اور سماجی ترقی باہمی تعامل سے ہی ممکن ہوتی ہے۔جمہوری سیاسی نظام اپنی ہیئت کی تشکیل،وظائف اور پختگی کے لئے جن بنیادی اوصاف(تعلیم کی ایک معقول سطح،اظہار رائے کی آزادی، رواداری، اختلاف رائے کا احترام،قانون پسندی اور اس کی حکمرانی اور حقوق و فرائض سے واقفیت)کا رہین منت ہوتا ہے وہ پاکستانی سماج میں ابتدا ہی سے مفقود تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جمہوری سیاسی نظام کو اختیار کئے جانے کے بعد بھی ان جمہوری مبادیات کی نمو کے لئے کو ششوں سے اغماض برتا گیا۔ابلاغیات اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے اثرات کے باعث سماج میں زندگی کی جدید سہولیات تو متعارف ہوتی رہیں مگر سماجی اور شہری شعور CIVIC SENSE کی سطح جمود کی کیفیت میں رہی۔جس کے باعث سیاسی اور سماجی اعتبار سے پاکستان میں گہرے اور گھمبیر تضادات موجود ہیں۔سیاسی جماعتیں جو عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کی تربیت کرتی ہیں، پاکستان میں بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔60 فیصد سے زائد پاکستان کے دیہی سماج میں موجود شدید نوعیت کے معاشی اور انسانی عدم مساوات کے باعث سیاسی اور قانونی مساوات کا اطلاق آسان بات نہیں اور کم وبیش اسی طرح کی صورتحال شہروں میں بھی موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میںجمہوری سیاسی نظام کو سماج کے بااثر طبقات نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے روئیے کسی بھی صورت جمہوری نظام (عوامی حاکمیت) سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں کسی نجی کمپنی کی طرح خاندان کی اجارہ دارارانہ حقوق کے ساتھ سیاسی عمل کا حصہ بنتی ہیں۔جماعت میں تنظیمی عہدوں کا معاملہ ہو یا حکومت سازی کا ،انتخابات کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم کا موقع ہو یا اداروں کے سربراہوں کا تقرر کرنا ہو،اہلیت کے بجائے قرابت داری یا ذاتی تعلقات تقرر کا معیار ہوتے ہیں۔ باپ،بیٹا بیٹی،بھائی، بہن، بہو، داماد،سسر، سمدھی،دوست غرض کوئی رشتہ اور تعلق ایسا رہ نہ جائے جسے جماعت میں عہدہ یا اقتدار ملنے کی صورت میں منصب نہ ملے۔ یہ درست ہے کہ عوام کا منتخب کردہ جمہوری سیاسی نظام حکمرانی،خواہ اس کی نوعیت پارلیمانی ہو یا صدارتی، ایک ترقی یافتہ اور بہتر قابل عمل نظام ہے۔ مگر اس صورت میں جب اس نظام میں خواص کے بجائے عوام کو اہمیت حاصل ہو۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ سیاسی نظام جمہوریت پر ایک داغ ہے،اس کے سوا کچھ نہیں۔ پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی سے ایک مقابلے کی فضا موجود ہوتی ہے اور عوام کو انتخابی عمل کے ذریعے سیاسی جماعت اور ان کے امیدواروں کو حکومت سازی کے لئے موقع دئے جانے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی غیر جمہوری تشکیل اور طرز عمل سے جمہوری سیاسی نظام عوام کی حاکمیت کے بر خلاف طاقتور اور با اثر طبقات کی حاکمیت اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے فعال رہتا ہے ۔گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ نوازکی تنظیم نو کی گئی ۔جماعت کے تمام عہدوں پر بلا مقابلہ انتخابی عمل کی رسمی کارروائی کا انعقاد کیا گیا ۔اور پاکستان کی تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ ہے۔(البتہ جماعت اسلامی کو ایک استثنی حاصل ہے کہ وہاں امیر کے لئے باقاعدہ مقابلے کے ذریعہ انتخاب عمل میں آتا ہے۔) بلا مقابلہ انتخاب سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ اول یہ کہ سیاسی جماعت میں اہلیت کا فقدان ہے ۔ دوم یہ کہ جماعت کے اندر غیر مرئی دبائو کے زیر اثر کسی نے مقابلہ کی جرات ہی نہیں کی۔ ہر دو وجوہ کو،ہمارے خیال میں،جمہوری رویوں کے منافی سمجھاجانا چاہیئے۔اور اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے،جب تک سیاسی جماعتیں اپنی تنظیمی سطح پر جمہوری رویوں کو فروغ دینے میں تامل کا شکار رہینگی جمہوری سیاسی نظام بھی داغ دار رہے گا۔ابھی حال ہی میں سندھ کے بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے ہیں سندھ کے بیشتر شہروں کے میئر ، ڈپٹی میئر اور چیئرمین بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود یہ کہنا کہ کراچی میں میئر پیپلز پارٹی کا جیالا ہو گا ۔ جمہوری رویہ ہر گز نہیں ۔’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘ اس کا عملی مظاہرہ کراچی کے میئر کے انتخاب کے موقع پر سب نے دیکھا ۔ 30 اراکین اس موقع پر غائب رہے یا غائب کر دیئے گئے اور الیکشن کمیشن،عدالت عالیہ اور قانو ن پر عمل درآمد کر نے والے اداروں سمیت کسی نے بھی حقیقت حال جاننے کی زحمت نہیں کی اور یوں جیالامیئر لانے کی خواہش پوری ہو گئی۔ اور جمہوریت(اکثریت) سے انتقام بھی لے لیا گیا ۔ جمہوری طریقہ کار اور روایات تماشہ بنتی ہیں تو بنیں۔ پا کستان کے جمہوری نظام میں کب ان کی پرواہ کی گئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کا المیہ ہی یہ ہے کہ جمہوری عمل کو سب سے زیادہ نقصان سیاسی قائدین کے رویوں سے پہنچاہے۔محض انتخابات کا انعقاد اور وہ بھی جس طرح ہوتا ہے ،جمہوری سیاسی نظام ہر گز نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی نظام تو اس سے آگے اور بعد کا مرحلہ ہے جس پر سیاست دانوں کی بالکل توجہ نہیں۔یہی سبب ہے کہ پاکستان میں انتخابات تو ہوتے رہے ہیں ، سیاسی جماعتیں بھی ہیں ،پارلیمنٹ بھی اپنا وجود رکھتی ہے مگر جمہوری سیاسی نظام کے ثمرات ایک مخصوص طبقہ کو ہی ملتے رہے ہیں۔ عوام محض ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی اس جمہوری نظام کا حصہ ہوتے ہیں باقی سب تماشہ سماج کے طاقت ور طبقہ کے لئے جاری رہتا ہے۔ اس طبقہ کے ہاتھوں سیاسی جماعتیں ہی یرغمال نہیں ہیں بلکہ پورا سیاسی نظام،مالیاتی وسائل اور ریاست کے مستقبل کے فیصلے سب ان کے دست ہنر کے رہین منت ہیں۔ مگر کب تک ؟ جمہوری سیاست پر لگے یہ داغ عوام کو ہی مٹانے ہو نگے ۔ کب اور کیسے اس کا فیصلہ تو وقت کے ہاتھوں ہی ہونا ہے !!!