اَمریکی صدر بائیڈن نے سات مارچ بروز جمعرات اَمریکی کانگرس کے مشترکہ اِجلاس سے سالانہ خطاب کیا ہے جسے "اسٹیٹ آف دی یونین خطاب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ امریکی صدر کا اپنے صدارتی عہد کا آخری "اسٹیٹ آف دی یونین خطاب" تھا۔ حالیہ انتخابی سروے میں بائیڈن اور ٹرمپ کے مابین صدارت کے لیے انتہائی کانٹے دار مقابلہ متوقع کیا جارہا ہے۔ اس لیے نومبر کے صدارتی انتخابات کے تناظر میں سات مارچ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ وہ 81 سال کے ہیں، اور دوسری مدت کے اختتام پر 86 سال کے ہوں گے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے مہلک فوجی حملے کے باوجود اسرائیل کی ان کی کٹر حمایت پر امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر حصوں میں ہونے والے احتجاج بھی امریکی صدر پر ایک قسم کا دباؤ ہے۔ بائیڈن کے مارچ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے اہم نکات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر نے مندرجہ ذیل نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنے خطاب میں، صدر بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ امداد کی ترسیل کو آسان بنانے کے لیے فلسطینی سرزمین کے ساحل پر ایک "عارضی گھاٹ" تعمیر کرے گی جس سے غزہ کی امداد میں اضافہ ہوسکے گا۔ بائیڈن کے بقول یہ گھاٹ "کھانے، پانی، ادویات اور عارضی پناہ گاہوں والی بڑی کھیپیں وصول کر سکے گا"۔ البتہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو غزہ میں مزید امداد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے کنڈیشنگ امداد یا ہتھیاروں کی منتقلی کو روکنے کو مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت "آہنی پوش" ہے۔ بائیڈن کے موقف کے ناقدین کے بقول غزہ کا گھاٹ ممکنہ طور پر علاقے میں بھوک کے بڑھتے ہوئے بحران کو ختم کرنے میں ناکام ہو جائے گا کیونکہ پہلی بات یہ کہ بائیڈن نے کسی بھی قسم کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا کہ یہ "عارضی گھاٹ" کب سے کام شروع کرے گا اور دوسری بات یہ کہ اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی جاری رکھتے ہوئے امداد کی ترسیل روکی ہوئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ غزہ کے 700,000 لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، اور اسرائیل ان کو درکار انسانی امداد کی اجازت نہیں دے رہا۔ ایک طرف صدر بائیڈن نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں مزید امداد کی اجازت دے، دوسری طرف زور دے کر کہا کہ وہ اسرائیل کے "عمر بھر حامی" رہے ہیں جبکہ حاضرین کو چیلینج کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے زیادہ مضبوط حمایت کی طلب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یوکرائن کے ایشو پر بائیڈن نے اپنے خطاب میں کانگریس کے ارکان پر زور دیا کہ وہ یوکرائن کو دی جانے والی امداد کو نہ روکے تاکہ روس کے حملے کو روکنے میں یوکرائن کی مدد کی جا سکے جبکہ صدر پیوٹن کے لیے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ "ہم وہاں سے نہیں جائیں گے۔ ہم نہیں جھکیں گے" یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریپبلکن قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد نے کیف کے لیے جاری امریکی فنڈنگ کی مخالفت کی ہے۔ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی مزید اہم بات یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے خارجہ پالیسی پر زیادہ بات کرنے سے اِحتراز کیا ہے جسکی توجیح غالباً یہی دی جاسکتی ہے کی خارجہ پالیسی کے میدان میں اَمریکی صدر کی کارکردگی اتنی قابلِ فخر نہیں ہے جسکی بنیاد پر 2024 کیصدارتی اِنتخاب میں حصہ لیا جاسکے جبکہ کرونا وبا اور یوکرائن کی جنگ سے دنیا بھر کی معیشتوں کے متاثر ہونے اور اَفراطِ زر کی شرح میں اِضافے کے بعد سے اَمریکی صدر کی زیادہ توجہ امریکی عوام کو درپیش داخلی مسائل کے حل پر مرکوز ہے اِسی لیے صدر بائیڈن نے اَمریکی خارجہ پالیسی کے میدان میں اپنی کامیابیوں اور چیلنجز کا اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کھل کر تذکرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ بائیڈن کا خطاب زیادہ تر امریکہ کے داخلی مسائل پر مرکوز تھا، جن میں سے سب سے اہم ان کی انتظامیہ کا معیشت کو سنبھالنا تھا۔ امریکی صدر نے کہا کہ انہیںکورونا وبائی امراض کے دوران ایک ایسی معیشت ورثے میں ملی تھی جو "تباہی کے دہانے پر" کھڑی تھی، لیکن ان کی پالیسیوں نے اسے بحال کرنے میں مدد کی۔ بائیڈن کے اپنے الفاظ یوں ہیں کہ "اب ہماری معیشت لفظی طور پر دنیا کے لیے قابل رشک ہے۔ صرف تین سالوں میں 15 ملین نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں" بائیڈن نے طویل عرصے سے اپنے آپ کو ٹرمپ اور سابق ریپبلکن صدر کے Again America Great Make کے نعرے کا مقابلہ کرنے اور اس کے توڑ کے لیے اپنے آپ کو امریکی جمہوریت کی حفاظت کرنے والے ایک محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سات مارچ کے خطاب کا ایک بار پھر اہم موضوع یہی تھا۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کے ایک ہجوم نے جنوری 2021 ء میں امریکہ کے "کیپیٹل ہل" پر دھاوا بول دیا تھا تاکہ کانگریس کو بائیڈن کی 2020ء کے انتخابات میں کامیابی کی تصدیق کرنے سے روکا جا سکے۔ ٹرمپ کو انتخابی نتائج کو الٹانے کی کوششوں سے منسلک دو مجرمانہ مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ بائیڈن نے ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "میرے پیشرو اور آپ میں سے کچھ 6 جنوری 2021ء کے بارے میں سچائی کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میں ایسا نہیں کروں گا۔" "یہاں سادہ سچائی ہے: آپ اپنے ملک سے صرف اس وقت محبت نہیں کر سکتے جب آپ جیت جاتے ہیں۔" ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن نے ایک طویل فہرست پر مشتمل پالیسی والی تقریر کرنے کی کے بجائے سیاست کی طرف جھکاؤ رکھا، اور بعض اوقات، کچھ شعلہ بیانی سے ڈیموکریٹس کے جذبات کو ابھارتے اور بڑھاوا دینیکی کوشش کی۔ اس تناظر میں بائیڈن کا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب5 نومبر بروز منگل کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کی کیمپین کی تقریر تھی جس کا واضح اور بنیادی مقصد امریکی ووٹروں کی نظروں میں امریکہ کی صدارت کے عہدے کے لیے ایک بار پھر اپنے آپ کو بہترین امیدوار کے طور پر پیش کرنا تھا۔