تجربہ کار امریکی سفارت کار ہنری کسنجر نے گزشتہ ہفتے کے دوران چین کا "حیرت انگیز" دورہ کیا ہے اور چین کے اعلیٰ ترین سفارت کار وانگ یی اور وزیر دفاع سمیت چینی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی ہے۔ چین میں اِنتہائی قابلِ احترام سمجھے جانے والے سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کسنجر نے چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی ہے۔ کسنجر کے اس دورے کو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان منجمد تعلقات کے پس منظر میں "نئے تعلقات" کے قیام کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کسنجر نے اس وقت چین کا دورہ کیا ہے جب موسمیاتی تبدیلی کے متعلق امریکی نمائندہ جان کیری بھی چینی حکام سے ملاقات کے لیے بیجنگ میں تھے اور جن کے دورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ دونوں ممالک موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جان کیری کا دورہ ان سینئر امریکی عہدیداروں کے دوروں میں تازہ ترین تھا جنہوں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران چین کا دورہ کیا ہے۔ اِس سے پہلے، اَمریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 12-13 جون 2023 کو دو روزہ دورہ کیا جس کا طویل عرصے سے اِنتظار کیا جارہا تھا اور اقوامِ عالم میں اِس دورے کا اِنتہائی غور سے مشاہدہ قریب سے دیکھا گیا۔ چین اور اَمریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات تائیوان، ہانگ کانگ، آب و ہوا کی تبدیلی اور بحیرہ جنوبی چین میں نیویگیشن سے لے کر ہائپرسونک میزائلوں، خلا میں تسلط، سائبر سپیس، جوہری عدم پھیلاؤ، تجارت اور انسانی حقوق، خاص طور پر سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، چین کے خلاف چین اور روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ میں چین کو روس کی مبینہ حمایت سے روکنے جیسے اِیشوز کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ،چین اور امریکہ کے درمیان ایک اور کانٹے دار مسئلہ چینی اہلکار لی شانگفو پر امریکی پابندیاں ہیں، جو مارچ 2023 سے چین کے قومی دفاع کے وزیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اَمریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، یہ پابندیاں چین کی طرف سے 2017 میں دس SU-35 لڑاکا طیاروں کی خریداری اور 2018 میں S-400 زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے متعلق ہیں۔ 100 سالہ کسنجر 1970 کی دہائی میں کمیونسٹ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ریاست ہائے متحدہ کے مرکزی کردار تھے اور انہوں نے کئی سالوں سے چین کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے صدر رچرڈ نکسن کے تحت قومی سلامتی کے مشیر اور ریاستی سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دی ہیں جبکہ صدر فورڈ کے ساتھ بھی سیکرٹری آف سٹیٹ کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ مسٹر کسنجر نے 1970ء کی دہائی میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم سفارتی کردار ادا کیا۔ کسنجر 1971ء میں کمیونسٹ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے مشن پر خفیہ طور پر چین گئے تھے۔ اس دورے نے اس وقت کے اَمریکی صدر رچرڈ نکسن کے تاریخی دورے کی راہ ہموار کی، جنہوں نے 21-28 فروری 1972 کو چین کا دورہ کیا جس نے "سرد جنگ" کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور، نتیجتاً مشہور "شنگھائی اِعلامیہ" ( Communiqué Shanghai ) کے تناظر میں چین اور اَمریکہ کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ Communiqué Shanghai کے تحت امریکا نے "ایک چین" کی پالیسی کو تسلیم کیا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے اور ایک دوسرے کی سالمیت کا احترام کرنے کا عہد کیا۔ کسنجر کے حالیہ دورے کو چین میں خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ کسنجر نے حالیہ دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن گزشتہ ماہ چین کے دورے کے دوران مسٹر شی سے ملاقات نہیں کر سکے تھے۔ اِسی طرح وزیر خزانہ جینٹ ییلن اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری کو چین کے صدر سے ملاقات کا وقت نہیں ملا۔ چینی صدر شی اور کسنجر کے درمیان ملاقات عظیم عوامی ہال (جہاں عام طور پر غیر ملکی معززین سے سرکاری ملاقاتیں ہوتی ہیں) میں منعقد ہونے کی بجائے دیوتائی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ہوئی ہے۔ تاہم اس ملاقات کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ ملاقات کا اہتمام اسی عمارت میں کیا گیا تھا جہاں کسنجر اور چینی رہنماؤں کے درمیان تاریخی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ کسنجر کا چین میں بڑے پیمانے پر احترام کیا جاتا ہے اور وہ عہدہ چھوڑنے کے بعد سے مسلسل چین کے دورے کر چکے ہیں۔ اگرچہ یہ دورہ نجی حیثیت میں تھا لیکن بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مسٹر کسنجر ایک نجی شہری ہونے کے ناطے صدر شی اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں زیادہ بے تکلف ہو سکتے ہیں (اور یقینی طور پر وہ تھے) جس کی وجہ سے امریکی خدشات اور مطالبات پیش کرنے میں ان کا رویہ زیادہ لچکدار ہوسکتا ہے۔ اس بے تکلفی کا اندازہ چین کے صدر شی اور کسنجر کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کسنجر کو ’’پرانا دوست‘‘ قرار دیتے ہوئے چینی صدر شی نے کسنجر سے کہا کہ ’’چینی عوام اپنے پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتے، چین امریکہ تعلقات ہمیشہ ہنری کسنجر کے نام سے جڑے رہیں گے‘‘۔ اسی طرح گزشتہ سال تک چین کے وزیر خارجہ رہنے والے چین کے اعلیٰ ترین سفارت کار وانگ یی نے کسنجر کے ساتھ اپنی ملاقات میں کہا ہے کہ "چین کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کے لیے کسنجر کی طرز کی سفارتی انداز اور نکسن کی طرز کی سیاسی جرات کی ضرورت ہے۔" ہنری کسنجر کے پرتپاک استقبال کے ساتھ، چین نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے جبکہ جنگی جنوں سے اِجتناب کرنا چاہتا ہے۔ تاہم، کسی کو امریکہ اور چین کے مابین تعلقات کو آگے بڑھانے والے بنیادی اصولوں میں فوری طور پر کسی بامعنی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ یقینی طور پر دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی تحفظات کے تحت چلائے جائیں گے۔ موجودہ دوروں سے ایک اور اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت میں غیر سرکاری روابط خصوصی طور پر عوام سے عوام کے تعلقات، سرکاری تعلقات سے زیادہ اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ چین اور امریکہ کے مابین تعلقات میں حالیہ رجحان کو "نکسن سے پہلے کے سالوں میں واپسی" کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اِس لیے دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو غیر منجمد کرنے کے لیے خصوصی سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ دنیا امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ کے تناظر میں کم و بیش تمام دنیا باالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک کو پہلے ہی اِقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جیسا کہ سابق سفارتکار کسنجر نے خود کہا ہے کہ ’’دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات عالمی امن اور انسانی معاشرے کی ترقی کا معاملہ ہے‘‘۔