پچیس دسمبرہمارے لیے دوہری خوشیاں لاتا ہے۔مسیحی برادری کرسمس کی خوشیاں مناتی ہے ۔ یہی بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش ہے ۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں کرسمس آنے سے چند روز پہلے ہی مسیحی عبادت گاہوں کو سجا لیا جاتا ہے۔ دعائیہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ کرسمس شدید سردی کے دنوں میںمنائی جاتی ہے۔ سرد علاقوں میں زندگی کو منجمد کرنے والے درجۂ حرارت اور برف باری سے چاروں طرف پھیلی نیم تاریکی میں سانتا کلاز کی نورانی شکل میں ایک شخص نمودار ہوتا اور اُمید افزاپیغام دیتا ہے کہ ماحول کتنا ہی ناسازگار ہو لیکن ہماری زندگی نیک ‘ مہربان انسانوں کی بدولت بہت خوبصورت ہے۔ موسم کی سختیوںمیں کرسمس کی روشنیوں سے انسانوں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ یہ جگ مگ انہیں ایک نئی توانائی کے ساتھ ‘ نئے عزم کے ساتھ زندگی سے نبر دآزما ہونے کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس پیغام کے ساتھ کہ وہ تنہا نہیں بلکہ انکے خالق خداوند تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیںاور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی اُمت کے لیے دعائیں انکی رفیق ہیں۔ کرسمس کا چراغوں سے سجا ہوا سبز درخت اس بات کی علامت ہے کہ سردی سے مرجھائے ہوئے پیڑ دوبارہ سرسبز ہوں گے اور سردیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کے بعد سورج کی کرنیں زمین کو دوبارہ منور کریں گی۔ کرسمس انسانوں کے درمیان بھائی چارہ ‘ محبت اور مہربانی کو فروغ دینے کا پیغام ہے۔ جس طرح مسلمان عید الفطر سے پہلے فطرانہ اور دیگر عطیات سے اپنے کمزور بھائیوں کی دلجوئی کرتے ہیں کرسمس کے موقع پر چرچ کے تحت چلنے والے فلاحی ادارے مستحق کرسچن خاندانوں کواس تہوار کے موقع پر خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب میں ایک اجتماعی خوشی کے دن کا تصور موجود ہے۔ ایک ایسا دن جب اس مذہب کے تمام پیروکار کام کاج سے رخصت لے کر مشترکہ عبادت کا اہتمام کرتے ‘ نئے کپڑے پہنتے اور اچھے کھانے کھاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے میل جول کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ ان تہواروں کے مذہبی پہلو کے ساتھ ساتھ انکی نفسیاتی اور معاشرتی اہمیت مسلم ہے۔ ہر انسان کو کام کاج کی روٹین کی اکتاہٹ اور تھکاوٹ سے تعطیل لینے کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہفتہ وار چھٹی کا رواج پڑا تاکہ لوگ ذہنی و جسمانی آرام کرسکیں۔ اپنے خاندان اور معاشرتی زندگی کے معاملات کو وقت دیں۔ تہوار کے ایام میں تعطیل کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے سے لوگوں کے سماجی رشتے مستحکم ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے ‘ قریبی رشتوں کی تجدید کا موقع ملتا ہے۔ کرسمس ‘ عید ایسے تہوار معاشروں کی گوند ہیں جو افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ وہ ایّام ہیں جب لوگ زندگی کی کلفتوں‘ پریشانیوں ‘مشکلات و مسائل اورمنفی پہلووں کو وقتی طور پر بھلا کر تصویر کے روشن اور مثبت پہلووں کو دیکھتے ہیں۔ زندگی کا حظ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ روزمرہ کے تفکرات سے ایسا عارضی فرار ہے جسے انسان نے ہزاروں برس کے تجربہ سے اپنی ذہنی صحت کے لیے مفید پایا اور باقاعدہ تہوار کی شکل دے دی۔ ہر روایتی تہوار کے پیچھے بہت سی حکمتیں پوشدہ ہیں۔ ایک بڑی دانش یہ ہے کہ ان مواقع پر خاص و عام معمول سے زیادہ خریداری کرتے ہیں جس کے باعث دولت کا ارتکاز کم ہوتا اور روپیہ پیسہ گردش میں آتا ہے۔ تجارت فروغ پاتی ہے۔ عید اور کرسمس کے روز سے ایک ماہ پہلے ہی لوگ نئے کپڑے‘ جوتے اور دیگر اشیا خریدنے لگتے ہیں۔ بقر عید پر جانوروں کی خریداری کے باعث دولت شہروں سے دیہات میں منتقل ہوتی ہے۔ دولت کا یوں یک دم مارکیٹ میں آنا تجارت اور صنعت دونوں کے لیے مفید ہے۔ کروڑوں لوگوں کا روزگار ان تہواروں سے منسلک ہے۔ پاکستان میں تقریباًپینتیس لاکھ مسیحی آبادی ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور فیصل آباد میں مسیحی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ شمالی‘وسطی پنجاب میں درجنوں ایسے دیہات ہیں جہاں مسیحی غالب اکثریت میں ہیں۔ کرسمس کے موقع پر حکومت مسیحی برادری کے لیے خصوصی انتظامات کرتی ہے۔ مسیحی ملازمین کو کرسمس سے پہلے تنخواہ دی جاتی ہے۔ مبارکباد کے پیغامات دیے جاتے ہیں۔ مسیحی برادری کی پاکستان کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ مسیحی مذہبب میںانسانوں کے درمیان محبت اور خدمتِ خلق کو خاص مرتبہ اور عبادت کا درجہ حاصل ہے۔چرچ کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں نے اس خطہ میں جدید تعلیم کا ڈول ڈالا۔ رنگ محل لاہور میں موجودمشن اسکول پونے دو سو سال پہلے اسوقت قائم ہوا ۔کرسچن راہبات نے تعلیم اور نرسنگ کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی ساری عمر اپنے اپنے شعبے میں یکسوئی سے خدمتِ خلق کرنے میں گزرجاتی ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والی مسیحی راہبہ رتھ کیتھرین فاؤ ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں پاکستان آئیں اور مرتے دم تک یہاں برص کے مریضوں کی رضاکارانہ خدمت انجام دیتی رہیں۔ چرچوں کے ماتحت اسکول معیاری اور سستی جدیدتعلیم مہیا کررہے ہیں۔اس ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ بے شمار کرسچن اساتذہ کا ہمیشہ کے لیے ممنون ہے۔ پاکستان کے خوبصورت چرچ ہمارے متنوع طرز تعمیر اور تاریخی ورثہ کے عکاس ہیں۔ مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد نے پاک فوج اور فضائیہ کے لیے دلیری اور جاں فروشی سے خدمات انجام دی ہیں۔ میجر جنرل نوئیل اسرائیل اور میجر جنرل جولیان پیٹر اُن فوجی افسروں میں شامل ہیں جو اپنی قابلیت کی بنا پر اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔مسیحی فوجیوں کے کارنامے پاکستان کی سلامتی کی ضامن بنیں۔ کرسچن موسیقاراورگلوکار جیسے روبن گھوش ‘ اے نیّر ‘آئرن پروین‘ ارونا لیلیٰ‘ شوکت علی‘ سلیم رضا‘ بنجمن سسٹرز ہمارے ثقافتی منظر نامہ کا اہم حصہ ہیں۔ پاکستان کو اپنی مسیحی برادری پر بجا طور پر فخر ہے۔