دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا کب ہے وصال یار کی محرومیوں کا غم یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا لگتے ہاتھ دو اشعار اور’ ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں، ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا۔ میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت، مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا۔آج احمد فراز کی پندھرویں برسی ہے جی میں آیا کہ کچھ یادیں تازہ کروں مندرجہ بالا اشعار بھی اس لئے لکھے گئے کہ جب میں محبوب ظفر کے ہاں اسلام آباد گیا تو ایک شام جو میرے نام تھی احمد فراز کی صدارت تھی اور محبوب ظفر کی لخت جگر نے یہ اشعار گا کر سنائے احمد فراز یقیناً فیض اور منیر کی طرح ایک کریز میٹک شخصیت تھے یہ کرزما ایک عطا ہے وہی کہ قدرت جس پر مہربان ہو جائے مگر اس میں محنت بھی کچھ زیادہ پڑتی ہے۔ فراز صاحب پر مصرع سازی تو ختم تھی ایسے ہی جیسے احمد ندیم قاسمی ساحر لدھیانوی کے بارے میں کہا کرتے تھے میں کوئی نقد و نظر پیش نہیں کر رہا یہاں کچھ یادوں کا تذکرہ مقصود ہے مگر پھر بھی فراز صاحب کی فارسی دانی نے ان کے کلام پر ایسے ہی اثر کیا جیسے غالب کے ہاں نظر آتا ہے۔ آپ ان کی لافانی نظم محاصرہ ہی دیکھ لیں کہ جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ نہ پاکستان کے حالات بدلتے ہیں نہ یہ نظم پرانی ہوتی ہے۔ سچ مچ آج بھی وہی محاصرہ ہے ان کے شگفتگی علاوہ محاورے کی چستی ملتی ہے ایک سیاسی شعور بھی جیسے کہ فیض صاحب کی صحبت سے ملا تھا۔ کچھ عرصہ قبل میں اسلام آباد گیا تو محبوب ظفر کے ساتھ میں ان کی قبر پر فاتحہ کے لئے گیا وہاں پرویز شاکر اور ثمیہ راجہ کی قبروں پر بھی فاتحہ خوانی کی تھی۔ فراز صاحب کے کتبہ پر شعر تھا: میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز ایک جھونکا تھا جو خوشبو کے سفر پر نکلا اسی مناسبت سے ایک شعر یاد آ گیا: کیا بتائوں تجھے کیسا ہے بچھڑنے والا ایک جھونکا ہے جو خوشبو سی اڑا جاتا ہے یقیناً احمد فراز ایک عہد کا نام ہے کہ اتنی شہرت اور مقبولیت شاید ہی کسی کو ملی ہو ہم نے تو ان کے ساتھ مشاعرے بھی پڑھے اور سفر بھی کئے خاص طور پر جب جمشید مسرور نے ہمیں اوسلو بلوایا تو کچھ دن میں نے فراز صاحب کی صحبت میں گزارے، کئی داستانیں ان کی زبان سے سنیں۔ میں فجر کی نماز پڑھنے لگا تو فراز صاحب مسکرا کر بولے کون سی نماز پڑھ رہے ہو۔میں نے کہا فجر کی کہنے لگے وہ تو رات ڈیڑھ بجے ہوتی ہے اب تو صبح کے پانچ بج رہے ہیں تب ہم نے وہاں سے نمازوں کا شیڈول لیا پھر کہنے لگے چلو مجھے چائے پلائو ہم اس پر خوش ہو گئے اور جیسے تیسے چائے بنائی اور ہم نے پی پھر انہوں نے وہ کہانی سنائی کہ پہلی مرتبہ وہ کار پر یورپ نکلے تھے۔ ایک مشاعرہ ہم نے کہوٹہ کا پڑھا ثمینہ راجہ بھی ہمارے ساتھ تھیں ان دنوں وکلا تحریک چل رہی تھی اور ہم بھی مزاحمتی شاعری لکھ رہے تھے ۔ فراز صاحب نے آمریت کے خلاف اسلام آباد میں جلوس بھی نکالا تھا ایک مشاعرہ مجھے بہاولپور کا یاد آ رہا ہے کہ پاکستان کے تمام نامور شاعر موجود تھے سٹیج کے سامنے آ کر کرائوڈ میں بیٹھ گئے فراز صاحب کی صحبت بڑی دلچسپ ہوتی تھی احمد ندیم قاسمی کے دفتر میں آتے تو رونق لگ جاتی۔احمد ندیم قاسمی کی صدارت میں ان کے ساتھ ایک شام جم خانہ میں ہوئی ان کی کچھ باتیں اب بھی یاد آتی ہیں تو دل کھل اٹھتا ہے۔ انہوں نے چین کا دورہ کیا تو ایک ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے کسی نے چینی مانگی تو کہنے لگے ایک آدھ چینی اٹھا کر کپ میں ڈال لو۔ ایک نہایت عمدہ محفل بھی یاد آئی کہ چند اہم ادیب اس میں بیٹھے تھے فہمیدہ ریاض مولانا روم کی غزلیات کا اردو ترجمہ سنا رہی تھیں کسی بات پر وہ ناراض ہو کر بولنے لگیں تو فراز صاحب کہنے لگے تم خوامخواہ آتش قبا ہو رہی ہے یہ واقعہ پھر کبھی سنائوں گا ان کی اپنے باس کے ساتھ نہیں بنتی تھی ایک روز سیر کے دوران باس نے فراز صاحب سے حال پوچھا فراز نے ان کے ہاتھ میں کتے کی رسی دیکھ کر کہا یہ بدنسل کتا کہاں لے جا رہے ہیں آپ۔باس نے کہا کیسے یہ بدنسل ہے فراز صاحب نے کہا A dog is known by the compny He Keeps مزے کی بات یہ کہ لاہور سے ہم کچھ ادیب جن میں خواتین کی تعداد بھی خاصی تھیں اسلام آباد کے دورے پر گئے تو ہم فراز ہائٹس میں ٹھہرے یہ وہ فلیٹس ہیں جو بارکوہ میں ہیں اور فراز صاحب نے بنوائے تھے۔ انہوں نے اپنا ایوارڈ بھی واپس کر دیا تھا کہ آمریت کے دور میں ملا تھا ہم نے تو انہیں کہا تھا کہ آپ کو یہ وصول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا بہرحال زندگی میں سب کچھ چلتا ہے۔ ان کے اشعار میں نے قصداً نہیں لکھے کہ وہ تو زبان زد خاص و عام ہیں تاہم ابتدائی دنوں میں ہم نے جو سنا تھا وہ اب تک کانوں میں رس گھولتا ہے ہر آدمی الگ سہی ‘ لہو کا رنگ ایک ہے اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میںملیں۔ بے شمار یادیں ہیں یاد آیا کہ جب سیف الدین سیف کا انتقال ہوا تو فراز صاحب شہزاد احمد ‘ احمد راہی اورراقم ایک ہی کار میں تھے صفدر حسین کے ساتھ ہم جنازے پر گئے فراز صاحب سیف صاحب کو استاد کہتے تھے اب تو یہ نابغہ ہائے روزگار سب یادیں ہی بن گئے۔ چلیے ایک شعر کے ساتھ اجازت: یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں