قا ئد اعظم برصغیر کی سیاسی قیادت میں آئین، قانون، اور جمہوری اقدار سے وابستگی کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام کے حامل تھے وہ جب تک قبل از آزادی کی مرکز مجلس قانون ساز کے رکن رہے، انہوں نے ہر زیر غور مسئلے پر وہی موقف اختیار کیا جو دستور، قانون اور جمہوریت کے ارفع اصولوں کا تقاضا تھا ۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے کہا کہ جمہوریت ہمارے خون میں ہے اور ہمیں اسے سیکھنے کے لیے کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہاں ارفع جمہور ی روایات قائم کی جاتیں اور تمام جمہوری ادارے عمدگی سے پروان چڑھتے مگر اقتدار کی ہوس میں طالع آزما ئوں نے محلاتی سازشوں کے ذریعے ایسے مجرمانہ کام کیے کہ آج بھی اس وقت کی مسلم لیگ اور آج کی شہباز شریف کی مسلم لیگ میں ہوس اقتدار کے لیے غیر جمہوری اداروں کی غلامی میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ قیادت کی نااہلی، بے اصولی اور عدم اخلاص نے پاکستان کو کبھی مستحکم نہیں ہونے دیا۔ قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہو ئی یا جان بوجھ کر دی گئی، ساتھ کوئی فالتو گاڑی اور ایمبولینس گورنر جنرل کے کارواں کے ساتھ نہ ہو تو ایسی غفلت مجرمانہ فعل نہیں تو کیاہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان لیاقت باغ میں شہید کردیئے گئے، قاتل سید اکبر کو بھی ایک پولیس افسر نے مار دیا ۔پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں قاتلوں اور لٹیروں کی اولاد دیں حکمران بنتی ہیں۔ 1958 تک مسلم لیگ کی حکمران قیادت ہم پر وزیر اعظم بدل بدل کر مسلط رہی مگر پھر غلام محمد اور سکندر مرزا کی سویلین آمریت کے بعد ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاء کے ذریعے فوجی آمریت قائم کر لی۔ 1956 کا آئین منسوخ کردیا گیا اور دنیا نے طرفہ تماشا دیکھا کہ قائد اعظم جیسے عظیم جمہوریت پسند انسان کے قائم کردہ ملک میں جنگل کا قانون کی حکومت بن گئی ۔اگر چہ ایوب خان نے عوامی تائید کے لیے بڑے جتن کیے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرا کر 1964 میں صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو جھرلو سے ہرا یا۔ انہیں انڈیا کا ایجنٹ ٹھہر یا مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کے لیڈرز نے ایوب خان کی حمایت کی مگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی کوششوں اور حمایت سے فاطمہ جناح کامیاب ہو ئی ۔مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی اور ایک تاریخی فقرہ کہا "ایوب میں کوئی خوبی نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک مرد ہے جبکہ فاطمہ جناح میں کوئی خامی نہیں سوائے کہ وہ ایک عورت ہے" مگر پھر وہ ایک رات اچھی بھلی سوئیں اور اگلے روز وہ پرسرار حالات میں فوت ہو گئیں اور ان کو دیکھنے والوں کو اس بات کے شواہد نظر آئے کہ ان کی وفات طبعی نہیں ہے۔ یحییٰ خان کے نا اہل دور میں ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا ۔شیخ مجیب بال بال بچ گیا وگرنہ وہ بھی پھانسی چڑھ جاتا، جسکا افسوس اکثر لوگ کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نازک حالات میں ملک کے سربراہ بنے۔ 93 ہزار قیدی رہا کروا کر وطن لائے دفاع اور امور خارجہ میں انہوں نے ملک کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں مگر آج کسی سرکاری ریکارڈ میں ان کی خدمات خصوصاً جوہری پروگرام لانے کے متعلق سرکاری ریکارڈ میں کچھ نہیں درج ہے ۔ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی کیونکہ بھٹو کے بدترین مخالفوں نے ضیا کو خوف زدہ کر دیا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں ۔اگر بھٹو بچ گیا تو وہ اسے نہیں چھوڑ ے گا یہی کام 76 سال کی ر خرابیوں کا ذمے دار پی ٹی آئی کی قیادت کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن آئین کے تحت الیکشن کروانے کی بجائے پی ٹی آئی کے چئرمین کو نااہل اور سزا دلوانے کے مشن پر ہے۔ وہ شخص جو ان ملکوں میں بھی کرکٹ ہیرو کی وجہ سے پاکستان کی پہچان بنا جہاں پاکستان کے محل وقوع کے متعلق کوئی آگاہی نہ تھی ایک صاحب سو کالم کرکٹ ہیرو کی کردار کشی میں لکھنے کے بعد ان کو کرکٹر بھی معمولی درجے کاقرار دے رہے ہیں، وہ کرکٹر جس کی 70 سے 80 کی دہائی تک باؤلنگ اوسط 20 اور بیٹنگ اوسط 50 سے اوپر رہی۔ آج بابر اعظم کی بیٹنگ اوسط 50 ہے اور پاکستان کے ایک دو بالرز کی اوسط 20 رہی ہے جب کہ پوری پی ڈی ایم اور اس کے اتحادی اپنی کمپین میں ایک شخص اور اس کی بیوی کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب جن کے نزدیک نواز شریف خدا کا اوتار ہے ان کا اپنا بیٹا سنتا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ مولانا مودودی کے مخالف اکثر فرقہ پرست جماعتیں تھیں ایک جماعت ہزاروی گروپ کے سربراہ کہنے لگے "اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں آپس میں ٹکرا ئیں گی یا دو مچھر آسمان پر ٹکرائیں گے تو اس کے پیچھے مودودی کا ہاتھ ہوگا" پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ وہ جیل میں بیٹھا بھی اسے خوفزدہ کر رہا ہے جوپاکستان نہیں آرہا ۔ جسٹس عمر عطابندیال جسٹس قیوم نہیں۔ اب ہر ایرا غیر جسٹس عمر عطا بندیال پر تنقید کر رہا ہے کیونکہ وہ اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے Restrain کا مظاہرہ کررہے ہیں یہی بہادر سورمے جسٹس افتخار محمد چوہدری، ثاقب نثار اور جسٹس گلزار کے متعلق اتنی بھی بات نہیں کر تے تھے کہ ان کا فیصلہ غلط ہے یا کراچی کا ٹاور گرانا نہیں چاہیے بہرحال قاہد اعظم، فاطمہ جناح بھٹو، بے نظیر سے لیکر ہماری تاریخ بھری ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو اپنے ہاتھوں سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ عمران خان کی انا بھٹو سے کم نہیں۔ مر جائے گا جھکے گا نہیں اور ہم کیا کریں گے۔