مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ جبکہ مجموعی طور پر 20ویں منتخب وزیر اعلیٰ ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کا حلف بھی اُٹھالیا ہے۔ اُنہیں 327ارکان میں سے 220ووٹ ملے۔ جبکہ سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف ) نے وزارت اعلیٰ کے عمل میں حصہ نہ لیتے ہوئے پوری کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ خیر جو بھی ہے لیکن سیاسی حلقوں کے لیے یہ بات یقینا خوش آئند ہے کہ پنجاب کی حد تک سیاسی عمل مکمل ہوا ہے اور ہم نے کہیں نہ کہیں استحکام کی جانب رختِ سفر باندھا ہے۔ خیر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی حقیقی ’’وکٹری سپیچ‘‘ میں کہا ہے کہ ’’مجھے ظلم اور انتقام کا نشانہ بنانے والوں کی شکر گزار ہوں، کرپشن کے خلاف میری زیرو ٹالرینس ہے۔ اپوزیشن آج ایوان میں ہوتی، شور شرابا کرتی تو مجھے خوشی ہوتی، میں ان سب کی بھی وزیرِ اعلیٰ ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا۔اپنے ایک ایک ایم پی اے اور ایک ایک کارکن کی شکر گزار ہوں، پیپلز پارٹی، آئی پی پی، ق لیگ کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں، اپوزیشن سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں ان کی بھی وزیرِ اعلیٰ ہوں۔ اپنے والد نواز شریف، چچا شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتی ہوں،سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں، میرا وزیرِ اعلیٰ بننا ہر پاکستانی خاتون کے لیے ایک اعزاز ہے۔ یقین دلاتی ہوں کہ میرے دفتر کے دروازے اپوزیشن کے لیے بھی ہر وقت کھلے ہوں گے، ن لیگ کی اتحادی جماعتوں کے لیے بھی میرے دفتر کے دروازے کھلے ہیں۔میں والدہ کا شکریہ ادا کرتی ہوں انہوں نے مجھے ایسے حالات کے لیے تیار کیا،بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب نامزدگی کے بعد نواز شریف نے مجھے مفید مشورے دیے۔ میرا مقابلہ کسی مخالف سے نہیں نواز اور شہباز شریف جیسے لوگوں سے ہے،میں ن لیگ کی نہیں پنجاب کے ساڑھے 12 کروڑ عوام کی نمائندہ ہوں۔‘‘ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے کہا کہ رمضان کے لیے نگہبان کے نام سے ریلیف پیکیج تیار کیا ہے، راشن بیگ بنا کر 65 سے 70 لاکھ گھروں تک پہنچائیں گے، سستے رمضان بازار لگائیں گے۔اس کے علاوہ انہوں نے یوتھ لون پروگرام ، پیڈ انٹرن شپ پروگرام ، ون ونڈو آپریشن برائے کاروباری حضرات وغیرہ کے لئے بھی اعلانات کئے اور کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پنجاب کا کوئی بچہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اسکول سے باہر نہ ہو۔ وزیرا علیٰ مریم نواز کی یہ ساری باتیں ایک طرف ، ان کی جدوجہد بھی ایک طرف ، مگر اُن سے یہ شکوہ ضرور ہے کہ انہوں نے چادر اور چار دیواری کو پامال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان نہیں کیا۔ نہ ہی انہوں نے سیاسی قیدیوں کے بارے میں کچھ کہا ہے، کیوں کہ جب انہوں نے کہا ہے کہ میں سب کی سی ایم ہوں تو یہ بات وہ کیسے بھول گئیں کہ پنجاب میں خواتین سمیت ہزاروں قیدی بھی گزشتہ کم و بیش ایک سال سے قید کاٹ رہے ہیں۔ چلیں کچھ اور نہیں تو کم از کم پنجاب کے ایم پی ایز جو قید ہیں کے بارے میں اعلان کر دیتیں کہ وہ اُن کی رہائی کے لیے کوششوں میں تیزی لائیں گی۔ کیوں کہ اگر پنجاب کی آدھی آبادی بھی اپوزیشن میں ہے تو وہ اس انتظار میں تھی کہ اُن کے لیے کسی خاص پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔ ۔ لہٰذا مریم نواز نے کو نہایت تحمل مزاجی، بردباری سے چلنا ہوگا ۔فی الوقت اگر اُن کی سیاسی جدوجہد کے حوالے سے بات کی جائے تو مریم 2012 میں سیاست کی طرف آئیں، 2013 کے عام انتخابات میں انہیں مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کی ذمے داری سونپی گئی، وہ 2013 میں یوتھ پروگرام کی سربراہ بھی رہیں۔ پھر ن لیگ نے مشکل وقت میں چیف آرگنائزرکی ذمہ داریاں دیں اور انہوں نے اس احسن انداز میں انہیں پورا کیا ۔ میرے خیال میں مریم نواز اپنی ماں جیسی خوبیوں کی مالک ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب بھی ن لیگ سمیت شریف خاندان پر مشکل وقت آیا ہے بیگم کلثوم نواز نے آئرن لیڈی کی طرح کردار ادا کیا ہے۔ یہ مریم نواز کی ہی جدوجہد ہے جس کی بدولت میاں نوازشریف کا بھرپور مزاحمت کا بیانیہ سر چڑھ کر بولنے لگا ،جس نے طاقت کے محوروں کو گھبرانے پر مجبور کیا۔ پھر سب کو یاد ہوگا کہ مین اسٹریم میڈیا پر پابندی کے باوجو د ووٹ کو عزت دو کانعرہ جس طرح پاکستان کے کونے کونے تک پھیلا ، اس کی مثال نہیں ملتی۔اور یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر مریم نواز اس بار بھرپور مزاحمت نہ کرتیں تو شاید میاں نوازشریف کو ملکی سیاست سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جاتا۔ مریم نے جب سیاست میں قدم رکھا تو اُس وقت کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنیں گی، اُس وقت میری اس حوالے سے مرحوم مشاہداللہ سے بات ہوئی تو اُن کے الفاظ مجھے آج بھی یا د ہیں کہ مریم نواز میں طوفان کے مخالف سمت میں سفر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ مریم نواز نے اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرکے ثابت کیا کہ وہ مزاحمت کی بہت بڑی علامت ہیں۔خیر اُس کے بعد ہم نے دیکھا کہ بی بی سی نے مریم نواز کو دنیا کی سو بااثر ترین خواتین کی فہرست میں شامل کیا ، نیویارک ٹائمز نے دنیا کی گیارہ بااثر ترین خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔اور اب نئی رینکنگ میں یقینا مزید نمایاں ہوں گی اور اگر اچھا کام کیا تو یقینا تاریخ میں بھی اُنہیں یاد رکھا جائے گا۔ بہرکیف اُنہیں اس سیٹ تک پہنچنے میں وقت لگا ہے، اس کے لیے انہیں صعوبتیں جھیلنا پڑیں، انہیں نواز شریف کے ساتھ کال کوٹھری تک میں بند کیا گیا، جہاں کیڑے مکوڑوں، مچھروں اور چوہوں تک نے جینا حرام کیے رکھا۔ حتیٰ کہ جسم پر زخموں کے نشان پڑ گئے۔ کپڑے تک بدلنے نہیں دیے جاتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اس دوران مریم نواز یا اُن کے خاندان کی جانب سے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی نہیں آئیں۔اور یہی نہیں بلکہ جب مریم نواز اور نواز شریف نے وطن واپس آنا تھا ، تو اُنہیں علم تھا کہ اُنہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ مگر وہ بھی بھی آئے۔ یہی عزم و استقلال کی نشانی ہے۔ لہٰذاوہ لیڈر بن چکی ہیں، میچور ہیں، سیاست کو سمجھتی ہیں۔ اُن پر قدرے تنقید بھی ہوتی ہے، مگر وہ برداشت کرتی ہیں۔ یہی بڑے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے۔ خیر مریم کو چیف منسٹر پنجاب بنانا مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا انتہائی اہم فیصلہ ہے۔ اس تقرری کے بعد مریم نواز کو پارٹی کے اندر غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، مطلب ! مریم نواز کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے، یقینا نظر آنا بھی چاہیے کیوں کہ انہوں نے نا صرف اس کے لیے جدو جہد کی ہے بلکہ انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ وہ ثابت قدم ہیں۔ لہٰذااس وقت مریم نواز کو چاہیے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور خدارا پنجاب کے بیٹے بیٹیوں کو جیل سے نکال کر اُن کی ہمدردیاں لیں تاکہ وہ پورے پانچ سال پورا فوکس اپنی کارکردگی دکھانے میں رکھ سکیں۔