وطن ِ عزیز میں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم دونوں کے حالات دگرگوں ہیں۔ تلاش کرنے سے تاحال کوئی ایسا سائنسدان نہیں ملا جس نے واقعتاً کوئی نئی چیز ایجاد کی ہو یا کوئی ایسی دریافت کی ہو جس سے بنی نو انسان کو فائدہ ہوا ہے۔کہا جاتا ہے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اداروں کی داغ بیل ڈالی خود انہوں نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ آج تک اْن کے نام سے کسی ایجاد کا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ جنہوں نے پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی اْن دونوں سائنسدانوں نے ملک کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔یہ واقعی سچ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہمیں وطن ِ عزیز میں کوئی تیسرا نام ایسا نہیں ملتا جس نے واقعی پاکستان اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی دریافت یا کچھ ایجادکیا ہو۔ جبکہ مندرجہ بالا سائنسدانوں میں سے اول الذکر اور موخر الذکر نے بالترتیب جو دریافت اور ایجاد کی اْن کے صلے میں ہم نے جو سلو ک اْن کے ساتھ کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ محسن ِ پاکستان جنابِ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بناکر پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایٹم بم بنانے کے بعد ہم اپنی اعلیٰ تعلیم، توانائی کی پیداوار، زرعی و صنعتی پیداوار، برآمدات سمیت دیگر امور پر خصوصی توجہ دیتے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ یوں اب ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ امیر ملکوں کے سربراہان ہمارے ایٹم بم کی بجائے ہمارے کشکول سے ڈرتے ہیں۔ حاکموں نے ملک کو اندھیروں کی اْس دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے روشنی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کو اِس نہج پہ لانے کے لئے کم از کم عوام کا کوئی قصور نہیں سوائے اِس کے کہ وہ ہر بار انقلابی نعروں پہ اعتماد کرتی آئی ہے۔ ہم غریب نہیں ہیں مگر ہمیں غریب بنادیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان جنابِ شاہد خاقان عباسی نے حالیہ ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ تیس سال سے زائد عرصہ سے اقتدار کی راہداریوں میں گھوم رہے ہیں مگر آج تک اْن کے سامنے کوئی ایسا قانون نہیں لایا گیا جو صحیح معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بنایا گیا ہو۔ اْن کے مطابق ہمیشہ ہر حکومت ایسی قانون سازی کرتی ہے جس سے اْسے (مزید) حکومت کرنے میں آسانی رہے۔ یہ ملک غریب نہیں ہے بلکہ اِس پہ حق ِ حکمرانی رکھنے والوں نے اِس ملک کو غریب بنا رکھا ہے یا کم از کم دنیا کے سامنے اِس ملک کو غریب ظاہر کررکھا ہے۔ وگرنہ حقائق اِس سے کہیں مختلف ہیں۔ دنیا کے بہترین قیمتی پتھروں سے لیس پہاڑ ہمارے پاس ہیں، دنیا کی دوسری بڑی چوٹی ہمارے پاس ہے، دنیا کی شاندار جھیلیں ہمارے ملک میں ہیں۔ ہم دنیا کا بہترین نہری نظام رکھتے ہیں۔سونااْگلتی زمین ہمارے ملک میں ہے۔ خود سونا ہمارے ملک کے علاقہ ریکوڈک میں پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کو مالٹا اور سنگترہ ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک سے زیادہ نوجوان افرادی قوت ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔پچاس سے زائد اسلامی ملکوں میں سے ایٹم بم ہمارے پاس ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ تہذیب (موہنجوداڑو اور ہڑپہ) کے آثار ہمارے ملک میں پائے گئے ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے دریا ’سندھ‘یا ’انڈس‘ کے نام پر ہمارے ہمسایہ ملک ’انڈیا‘ کا نام رکھا گیا ہے۔اِس لئے اگر کوئی ہمیں غریب کہے تو ہمارے لئے شرم کی بات ہے۔ دراصل ہم غریب ہیں بھی نہیں۔ حال ہی میں جس طرح ایوانِ بالا میں ایک بل منظور کیا گیا ہے وہاں سے ہماری امارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ مشکل بھی نہیں تھا بس اِس کے لئے محض عوام پر ایک نیا ٹیکس عائد کردیا جاتا کہ ہر شہری فی سانس کے بدلے حکومت کو سو روپیہ جمع کروائے گا۔ اِسی طرح ہماری نوکر ِ شاہی کے نوکروں کی تنخواہوں، مراعات، سرکاری گاڑیوں، مفت بلی، مفت پانی، مفت گیس سمیت سرکاری گھربمعہ تزین و آرائش اور دیگر ایسے کئی الاؤنسز شامل ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی اِن الاؤنسز سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ، عدلیہ، ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، ایوانِ وزیراعلیٰ، ایوانِ گورنر سمیت دیگر حکومتی عمائدین کے ہاں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہ ہماری کسی بھی سرکاری جامعہ کے استاد کی تنخواہ اور مراعات سے کئی گنا زیادہ ہے۔مذکورہ دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں کا سرکاری جامعات، کالجوں، یا دیگر سرکاری شعبہ جات کی تنخواہوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔وطن عزیز میں استاد کی معاشی حالت اِس قدر دگرگوں ہے کہ اْستاد کا بس چلے تو وہ نان چنے اور چکڑ چھولے کی دکان ڈال لے کیونکہ تنخواہوں اور مراعات کے نام پر استادکو جو ’سرکاری امداد‘ دی جاتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ چند سال قبل سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے دورِ حکومت میں ڈاکٹرز اور انجینئرز نے کم تنخواہ کو جواز بنا کر ہڑ تال کردی اور مدعا رکھا کہ اْن کی تنخواہ استاد کی تنخواہ کے برابر کی جائے۔ انجیلا مرکل نے جواباََ ہڑتال کرنے والوں کے سامنے یہ جواز پیش کیا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس انسان (استاد) نے تمہیں ڈاکٹر اور انجینئر بنایا ہے تمھاری تنخواہ اْس کے برابر کی جائے۔ یوں ہڑتال کرنے والوں کو بنا اپنے مطالبات منوائے پرانی تنخواہ پہ کام کرنا پڑا۔اندازہ لگائیں کہ کسی سرکاری جامعہ میں پڑھانے والے گریڈ بیس اور اکیس کے استاد کے پاس سرکاری گاڑی موجود نہیں مگر گریڈ سترہ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے پاس ایک ویگو ڈالا موجود ہوتا ہے جس میں ڈلوانے کے لئے لاتعداد سرکاری پیٹرول مہیا ہوتا ہے۔ گریڈ انیس اور بیس یا حتی کہ اکیس کا استاد سرکاری گھر کے حصول کے لئے سرگرداں رہتا ہے جبکہ بیوروکریسی میں گریڈ سترہ کے افسر کے پاس سرکاری گھر، ملازمین اور اْس گھر کی مرمت اور تزین و آرائش کے لئے پیسہ موجود ہوتا ہے۔گریڈ اکیس کے استاد کو ایک شوکاز کے نوٹس پر ملازمت سے برخاست کیا جاسکتا ہے جبکہ گریڈ سترہ کے افسر کو برخاست کرنے کے لئے وزیراعظم کی اجازت ضروری ہے جو کبھی نہیں ملتی۔ اگر ایسا ہوبھی جائے تو چند ماہ بعد بمعہ مراعات کے بحال کردیا جاتا ہے۔ اِس لئے ہمارے ملک میں پیسہ بھی موجود ہے، ذرائع آمدن بھی موجود ہیں۔ہمارے ملک میں انصاف پر مبنی نظام موجود نہیں ہے۔ اور جو نظام پایاجاتا ہے اِس نظام نے ہمیں غریب کررکھا ہے اور عوام کو محکوم بنا رکھا ہے۔