کرائے کے فوجیوں کی ایک طویل اور متنازع تاریخ ہے، جو قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے، جب انہیں بادشاہوں اور سلطنتوں نے اپنی جنگیں لڑنے کے لیے رکھا تھا۔ کرائے کے فوجی تاریخ انسانی میں بہت سے تنازعات میں ملوث رہے ہیں، جیسے کہ سو سال کی جنگ، تیس سال کی جنگ، امریکی انقلاب، نپولین کی جنگیں، بوئر جنگ، کانگو کرائسس، ویتنام کی جنگ، اور فاک لینڈ کی جنگ، جب کہ دور عصر میں بنگلہ دیش، افغانستان، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ، وینزویلا، یوکرین اور نائجیریا میں سرگرم رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنی جنگوں میں جہاں غیر روایتی طریق کار اختیار کرتی ہیں، وہیں پرائیویٹ کنٹریکٹر یا کرائے کے فوجیوں کو بھی استعمال کرتے ہیں جو سیاسی یا نظریاتی وجوہ کی بجائے ذاتی فائدے کے لیے فوجی تنازع میں شامل ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی سرکاری مسلح افواج کے رکن نہیں ہوتے، اور انہیں قانونی جنگجو کے طور پر تسلیم بھی نہیں کیا جاتا نیز جنگ کے قوانین کے ذریعے تحفظ کا حقدار بھی نہیں ٹھہرتے۔ سرد جنگ کے بعد مسلح تنازعات کے پھیلاؤ، ریاستی فوجوں کی تعداد میں کمی، اور نئے سکیورٹی خطرات کے ابھرنے کی وجہ سے نجی فوجی خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ چیلنجز کی شکار حکومتوں، باغی گروپوں، کارپوریشنوں، انسانی ہمدردی کی تنظیموں، اور افراد نے مختلف مقاصد، جیسے کہ سکیورٹی، تربیت، جنگی معاونت، انٹیلی جنس، لاجسٹکس، اور تعمیر نو کے لیے کرائے کے فوجیوں کو ملازم رکھا ہے۔کرائے کے فوجی اپنے گاہکوں اور بین الاقوامی برادری کو کئی فوائد کے ساتھ نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ایک طرف، کرائے کے فوجی کم لاگت، لچکدار، اور خصوصی خدمات فراہم کرتے ہیں جو سرکاری مسلح افواج کی تکمیل یا متبادل کر سکتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ کنٹریکٹر ایسے پیچیدہ اور خطرناک ماحول میں بھی کام کرتے ہیں جہاں ریاستی قوتیں ہچکچاتی ہیں یا مداخلت کرنے سے قاصر ہو سکتی ہیں ۔دوسری طرف، ایسے فوجی انسانی حقوق، جمہوریت، استحکام اور سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرات اور چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ یہ عام شہریوں اور جنگجوؤں کے خلاف یکساں طور پر مظالم اور خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر تے ہیں۔ کرائے کے فوجی اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے اور ناجائز عناصر یا وجوہ کی حمایت کرکے ریاست کی خودمختاری اور قانونی حیثیت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ جنگجو ملیشیا اپنے فائدے کے لیے تشدد اور عدم استحکام کو ہوا دے کر تنازعات کو طول بھی دیتے ہیں تاکہ انہیں مالی فوائد ملتے رہیں۔ ایسا رجحان ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی اجارہ داری کو چیلنج کرکے علاقائی اور عالمی نظم کو کمزور اور خطرہ بھی بنا تے ہیں۔ پرائیویٹ جنگجو ؤں کی وجہ سے ہی روس کو ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب کریملن سے قریبی تعلقات رکھنے والے نجی فوجی ٹھیکیدار واگنر گروپ کے رہنما نے روسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مسلح بغاوت کر دی ۔ ایک امیر تاجر اور صدر ولادیمیر پوتن کے قریبی ساتھی یوگینی پریگوزن نے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور جنرل سٹاف کے چیف جنرل ویلری گیراسیموف پر الزام لگایا کہ انہوں نے یوکرین میں ویگنر کے فیلڈ کیمپوں پر میزائل حملے کا حکم دیا تھا، جس میں ان کے 2,000 جنگجو مارے گئے۔ ردعمل کے طور پر پریگوزن نے ''ہمارے لڑکوں کو تباہ کرنے والوں '' کو سزا دینے اور اپنی 25,000 مضبوط فوج کے ساتھ ماسکو پر حملے کرنے کا اعلان کیا ۔ خیال رہے کہ ویگنر گروپ کرائے کی فوجیوں کا گروپ ہے جو دنیا بھر میں مختلف تنازعات میں ملوث رہا ہے۔ یہ گروپ شام، لیبیا، سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ، وینزویلا اور دیگر ممالک میں سرگرم رہا جو روسی اتحادیوں اور گاہکوں کو سکیورٹی، تربیت اور جنگی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس گروپ پر مختلف بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور مظالم کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ ویگنر گروپ یوکرین میں روس کی مداخلت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، جہاں اس نے 2014 سے روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل کر یوکرین کی حکومت کے خلاف جنگ لڑی خاص طور پر 2018 میں شام میں امریکی افواج کے ساتھ جھڑپ کے بعد اس گروپ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پریگوزن کی بغاوت روس کی سلامتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ دنیا میں اس کی شبیہ اور اثر و رسوخ کے لیے بھی سنگین خطرہ بن کر سامنے آئی تاہم فوری طور پر بیلاروس کی ثالثی میں روس اور ویگنر گروپ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوگیا جس میں ماسکو نے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ جنگجو گروپ کے سربراہ اور ان کے فوجیوں پر کوئی مقدمہ نہیں چلائے گا۔اس سے قبل ویگنر گروپ کی نجی فوج کے جنگجوؤں نے ماسکو کی جانب پیش قدمی جاری رکھی تھی اور راستے میں پڑنے والے شہر روستوف آن ڈان پر قبضہ کر لیا تھا جو ماسکو سے 1100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بغاوت نے روس سکیورٹی اپریٹس کے اندر دراڑیں اور تناؤ کے ساتھ ساتھ نجی فوجی ٹھیکیداروں کو خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی حدود اور خطرات کو بے نقاب کیا ۔بغاوت یوکرین میں تنازع کو بڑھا سکتی تھی اور روس اور مغرب کے درمیان وسیع تر تصادم کو ہوا ملتی۔ یہ بغاوت چین و روس کی ثالثی اور دیگر تنازعات کو حل کرنے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی تھی جہاں ویگنر ملوث ہے۔ بغاوت سے دوسری قوتوں اور گروہوں کو بھی حوصلہ ملتاجو روس کے مفادات اور مقاصد کی مخالفت یا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ پیوٹن کی قیادت اور عزم کے لیے بھی ایک امتحان تھا، کیونکہ انہیں اندر سے ایک ایسے دشمن کا سامنا کرنا پڑتا جو ان کے رازوں اور کمزوریوں کو جانتا ہے۔ اس بغاوت کے روس کی ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی نظام پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ ٭٭٭٭٭