اس رپورٹ نے پاکستان میں بسنے والے ہر اس شخص کو دہلا کر رکھ دیا جس کا تھوڑا سا بھی اسلام، تہذیب و معاشرت اور اخلاقی روایات سے تعلق تھا۔ یہ رپورٹ ’’انٹرنیشنل کمیشن برائے قانونی ماہرین‘‘ (International Commission of Jurists) نے 31 مارچ 2021ء کو شائع کی۔ اس رپورٹ سے یہ عقدہ کھل کر سامنے آیا کہ پاکستان میں دو سال قبل مئی 2018ء میں پارلیمنٹ نے ایک ایسا قانون منظور کر لیا ہے جسے کمیشن نے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ یہ کمیشن دنیا بھر کے ساٹھ اہم ترین ماہرینِ قانون پر مشتمل ہے، جو یوں تو عمومی طور پر انسانی حقوق کیلئے کام کرتا ہے، لیکن اس کی بنیادی خصوصیات (Key Themes) میں جنسی رجحان (Sexual Orientation) اور صنفی شناخت (Gender Identity) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دونوں "LGBT" کے عالمی ایجنڈے کی اہم شقیں ہیں۔ اسی لئے اسے دنیا بھر میں ’’ٹرانسجینڈر کمیونٹی‘‘ کے حقوق کا محافظ اور نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔ کمیشن نے پاکستان کے اس ٹرانسجینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018ء کو ایک ایسا سنگِ میل قرار دیا جس کی پاکستان کے اسلامی آئین کی موجودگی میں منظوری بہت بڑا کارنامہ تھی۔ سوئٹزر لینڈ میں قائم ادارے کی اس رپورٹ میں پاکستان کے ٹرانسجینڈر اور ہم جنس پرستوں (LGBT) کو آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کیسے اس قانون کو ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے تناظر میں جب بل کی تدوین و ترتیب کا مطالعہ کیا تو خوفناک حقائق سامنے آئے۔ اس ٹرانسجینڈر ایکٹ تک پہنچنے اور اسے منظور کروانے کیلئے انتہائی ’’چالاکی‘‘ اور ’’عیاری‘‘ کے ساتھ ایک منظم طریقے سے کام کیا گیا۔ پاکستان میں پرویز مشرف کی ’’آمد‘‘ ایسا مرحلہ ہے کہ اس دن سے اس ملک میں اسلامی تصورات اور تہذیبی اخلاقیات کو معاشرے کی جڑ سے اُکھاڑنے کا آغاز ہوا۔ مغربی ممالک کے سفارت خانے براہِ راست پاکستان میں این جی اوز بنوانے اور انہیں بھاری رقوم گرانٹ کی صورت دینے لگے۔ آغا خان ڈونرز ڈائریکٹری کے مطابق پاکستان میں آج بھی تین درجن کے قریب ایسے مغربی سفارت خانے کام کرتے ہیں جو براہِ راست این جی اوز سے درخواستیں وصول کرتے ہیں اور انہیں مسلسل سرمایہ فراہم کرتے۔ ان این جی اوز میں سے لاتعداد ایسی تھیں جنہوں نے انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور ’’جینڈر تفریق‘‘ کے نام پر تنظیمیں بنانا شروع کیں اور ایسے افراد کو ملازم رکھنا شروع کیا جو یوں تو پیدائشی طور پر مرد تھے لیکن انہوں نے جنسی میلان کے تحت عورت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ یہ اپنے آپ کو خواجہ سرائوں کے ساتھ منسلک کر کے اپنا اصل ہم جنس پرستی کا روپ چھپاتے تھے۔ ان میں سے بے شمار ایسے تھے جو پڑھے لکھے تھے اور اپنے جنسی رجحان (Sexual Orientation) کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ روپ دھار رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آہستہ آہستہ کھل کر ہم جنس پرستی (LGBT) کے عالمی ایجنڈے پر غیر محسوس طریقے سے اپنے کام کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ اس کام کیلئے انہیں دو پلیٹ فارم میسر آ گئے، ایک ’’انسانی حقوق کمیشن‘‘ اور دوسرا ’’عورت مارچ‘‘۔ پہلے انسانی حقوق کمیشن کی سالانہ رپورٹوں میں ان کا تذکرہ شروع ہوا اور پھر ہم جنس پرستوں کے مخصوص سات رنگوں والے جھنڈے عورت مارچ میں لہرائے جانے لگے۔ گذشتہ کئی برسوں سے تو باقاعدہ ٹرانسجینڈر ہی نہیں بلکہ براہِ راست مرد اور عورت کے ہم جنس پرستوں کے حقوق والے پلے کارڈ بھی ’’عورت مارچ‘‘ میں دکھائی دیئے جانے لگے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کی آڑ لیتے ہوئے 2009ء میں ڈاکٹر اسلم خاکی نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ پاکستان بھر میں خواجہ سراء بہت زیادہ کچلی ہوئی مخلوق ہے اور اسے زندگی کے ہر مرحلے پر اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے نادرا کو ہدایت کی کہ پورے ملک میں خواجہ سرائوں کو مخنث (Eunuch, Unix) کے طور پر رجسٹر کیا جائے۔ کسی قانون کی غیر موجودگی میں نادرا کے پاس پیمانہ صرف ایک ہی تھا کہ خواجہ سراء کسی نہ کسی طرح میڈیکل یعنی طبی بنیاد پر یہ ثابت کریں کہ وہ خواجہ سراء ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان سے صرف چار ہزار (4,000) خواجہ سرائوں نے اپنے آپ کو نادرا کے تحت رجسٹرڈ کروایا اور انہیں "X" کے شناختی کارڈ بھی جاری کئے گئے۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ پورے ملک میں چوراہوں، گلیوں بازاروں وغیرہ میں جو خواجہ سراء گھومتے پھرتے نظر آتے، ناچنے گانے کی محفلوں میں دکھائی دیتے ہیں اور ان این جی اوز میں کام کرنے والے جو بظاہر خواجہ سراء بنے ہوئے تھے، ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو پیدائشی طور پر ’’مکمل مرد‘‘ ہیں، لیکن اپنے طبعی میلان (Inclination) کی وجہ سے عورتوں کا روپ دھارے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طبعی میلان کو نفسیات میں جنسی کج روی (Sexual Deviation) کہتے ہیں جس کے لئے باقاعدہ نفسیاتی معالجہ (Psychotherapy) ہوتی ہے بلکہ اگر ضرورت پڑے تو ایسے کج رو افراد کی ہارمون تھراپی بھی کی جاتی ہے۔ یہ بالکل ایک ایسا ہی مرض ہے جیسے شیزو فرینیا (Schizophrenia) وغیرہ جیسے دیگر نفسیاتی امراض ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اسے مرض نہیں سمجھتے اور اسے اپنا میلان سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ ملک میں لاتعداد ایسے بچے بھی ہیں جو ماحول کی خرابی، لوگوں کی جنسی درندگی اور غیر اخلاقی جنسی معمولات کی وجہ سے بچپن ہی سے عورتوں جیسی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ ملک میں موجود لاتعداد گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پھر ان گروہوں کے ’’گرو‘‘ کی ہدایت پر خفیہ طور پر کسی میڈیکل ڈاکٹر کی ملی بھگت سے اپنے جنسی اعضاء کٹوانے (Castration) والے آپریشن سے گزر کر خواجہ سراء بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نادرا کے سامنے صرف چار ہزار ہی اصل خواجہ سراء رجسٹریشن کیلئے پیش ہوئے۔ اس کے بعد عالمی ایجنڈے کے تحت بنی ہوئی این جی اوز نے شور مچانا شروع کیا کہ ان کی اصل تعداد تو بہت زیادہ ہے اور خواجہ سراء لوگوں کے ڈر کی وجہ سے سامنے نہیں آتے۔ ان این جی اوز میں ٹرانس ایکشن الائنس (Trans action alliance) اور بلیو وینز (Glue Veins) نے دعویٰ کیا کہ صرف خیبرپختونخواہ میں ہی بیس سے پچاس ہزار تک خواجہ سراء ہیں، جبکہ کراچی کی اسی طرح کی ایک اور این جی او "Gender interactive alliance" نے بتایا کہ کراچی میں پندرہ سے بیس ہزار خواجہ سراء ہیں۔ مختلف سائنسی جرنلز میں مضامین لکھوائے گئے اور ہر مضمون میں خواجہ سرائوں کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اقوام متحدہ کا ایڈز کے خاتمے والا ادارہ ان کی مدد کو بیچ میں کود پڑا اور اس نے دعویٰ کر دیا کہ پاکستان میں 52,400 خواجہ سراء ہیں، جبکہ 2017ء کی مردم شماری میں صرف 10,418 افراد ایسے تھے جنہوں نے خود کو خواجہ سراء ظاہر کیا۔(جاری ہے)