انفلوئنزا وبا کے دنوں میں میلہ رام کے فرزندرائے بہادر سرن داس کے بقول ’’ایک رات ہم سوئے ہوئے تھے کہ کمرے میں کچھ آہٹ سی ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید ریش بزرگ براق لباس پہنے ایک ہاتھ میں عصا اور دوسرے میں تسبیح لیے میرے بیٹے گوپال داس کے پلنگ کے پاس کھڑے کچھ پڑھ رہے ہیں۔ میں انہیں دیکھ کر سہم گیا اور چیخ کر کہا کہ آپ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے میری آوازسنی ان سنی کردی اور دعا پڑھنے میں مشغول رہے۔ پھر وہ بزرگ میرے دوسرے بیٹے روپ رام کی چارپائی کے پاس گئے اور وہاں بھی دعا مانگی۔ پھر تیسرے بیٹے کے پلنگ کے قریب جا کر ایسا کیا۔ اس کے بعد وہ بزرگ مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے: میں تمہارا پڑوسی علی ہجویری ہوں۔ مجھ سے تمہاری پریشانی دیکھی نہ گئی‘ اس لیے میں دعا کرنے کے لیے خود آ گیا ہوں۔ اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرض میں مبتلا سب کو شفا دے گا۔‘‘ اس واقعہ کی صداقت کے بارے میں بھلے کوئی سند نہ ہو لیکن میلہ رام خاندان سے یہ واقعہ مختلف حوالوں سے روایت ہوا اور نذر کی صورت میں سچ ثابت ہوا۔ اس واقعہ کے دوسرے دن تینوں بچوں کا مرض ہلکا ہو گیا اور وہ کچھ بات چیت کرنے لگے۔ صبح ڈاکٹر حضرات معائنہ کرنے آئے تو لڑکوں کی طبیعت بہتر دیکھ کر خوش ہوئے۔ کرنل امیر چند کہنے لگے کہ رات میں جو دوا دے کر گیا تھا اس کا اثر ہونا ہی تھا۔ اس پر رائے بہادر سرن داس ہنس پڑے اور گزشتہ رات کا واقعہ سنایا۔ سب سن کر تعجب میں پڑ گئے۔سارے شہر کے طبیب سمجھ رہے تھے ان کی دوا کا نتیجہ ہے لیکن سرن داس نے کچھ اور کہانی سنا دی۔ جب بیماروں کو مکمل شفا مل گئی تو میلہ رام کے فرزند سرن داس نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے متولی کو بلا کر تمام قصہ سنایا۔ اس کے بعد دریافت کیاکہ وہ کس انداز سے شکرانہ نذر پیش کریں۔ آیا کھانے کی کچھ دیگیں پکوا کر فقراء میں تقسیم کردینا کافی ہوگا یا کہ نذر کسی اور صورت میں ہونی چاہیے۔ متولی نے جواب دیا کھانا تو آپ کی طرف سے ہر سال عرس کے موقع پر تقسیم ہوتا ہے۔ اب تو مستقل فیض کا کام ہونا چاہیے۔ اس پر رائے بہادر سرن داس نے دریافت کیا کہ کیا دربار میں بجلی موجود ہے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ ابھی تک وہاں بجلی کا کوئی انتظام نہیں تو انہوں نے کہا کہ بجلی کے کنکشن کا انتظام فوراً ان کی طرف سے کیا جائے۔ ایک مہینے کے اندر اندر بجلی لگ گئی۔ سرن داس نے پہلے نذر پیش کی اور پھر روشنی کا افتتاح کیا۔آج بھی داتا دربار کے احاطے اور عمارات میں روشنیاں میلہ رام خاندان کے لگوائے کنکش سے جگمگ کر رہی ہیں۔یہ ایک نذر ہے جو ہمیشہ کے لئے دربار پر آنے والے زائرین کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنی۔ یہ واقعہ بھی سرن داس کے متعلق نقل ہوتا ہے کہ ان کے بیٹوں کی طرح تین ہی صاحبزادیاںتھیں۔ ایک کی شادی لالہ باشی رام انجینئر سے‘ دوسری کی دیوان بدری ناتھ پرائیویٹ سیکرٹری مہاراجہ کشمیر سے اور تیسری صاحبزادی کی شادی کسی رئیس کے گھر ہوئی تھی۔ اس دور میں متمول ہندو گھرانوں میں لڑکیوں کو موسیقی کی تعلیم دینے کا رواج تھا۔سرن داس نے ملنے والوں سے کسی اچھے اور بزرگ موسیقار کا پوچھا ۔میاں بڈھا نامی نہایت شریف موسیقار کا پتہ چلا جو لاہور کے کوچہ شیعاں موچی دروازے کے رہائشی تھے ۔میاں بڈھا لڑکیوں کو راگوں کی تعلیم دیا کرتے۔ میاں بڈھا محرم کی آٹھویں تاریخ کو امام حسینؓ کی نیاز دیا کرتے‘ عام لوگوں کے علاوہ نواب محمد علی قزلباش‘ ڈپٹی غلام حسین‘ میر سردار حسین‘ خان بہادر شیخ محمد نقی اور فقیر نجم الدین شریک ہوتے۔ ان حضرات کے علاوہ رائے بہادر سرن داس بھی آیا کرتے اور ایک سو روپیہ نذر دیتے ۔ میاں بڈھا کی شرافت دیکھ کر ایک روز سرن داس نے ان کے روزگار کی کیفیت پوچھی۔ میاں بڈھا نے بتایا کبھی کسی رئیس کے گھر تعلیم دینے کا کام مل جاتا ہے اور کبھی بیکار رہتا ہوں۔ ریلوے سٹیش کے قریب آسٹریلیا بلڈنگ کے عین سامنے میلہ رام کا تعمیر کردہ تالاب تھا۔ اس تالاب کے چاروں طرف چند کوٹھیاں کرائے پر اٹھی تھیں۔ رائے بہادر سرن داس نے ان کی آمدن میاں بڈھا کی تا زیست نام کردی۔ بڈھے خان اپنے عہد کے نامور سارنگی نواز تھے۔ قصور شہر کے موسیقاروں کے سرودی خاندان سے تعلق تھا۔انہوں نے اپنے گھر والوں سے سارنگی سیکھی پھر مشہور استاد میاں دلاور علی خان کے شاگرد ہوئے۔میاں دلاور سے تعلیم حاصل کر کے پھر لاہور آ گئے۔ ان کی ریاضت کا یہ عالم تھا کہ ریت کی پوٹلیاں ہاتھوں سے باندھ کر مشق کیا کرتے۔ جن لوگوں نے ان کی سارنگی سنی وہ ساری زندگی اس کے کیف میں رہے۔ بڈھے خان کو رائے بہادر سرن داس نے صرف کوٹھیوں کی آمدن نہیں دی بلکہ پاس موجود کچھ دکانوں کی آمدن بھی تازیست نام کردی تاکہ وہ ہر غم اور پریشانی سے آزاد رہ کر فن موسیقی کی خدمت کر سکیں۔ بڈھے خان رائے بہادر سرن داس کی لال کوٹھی میں منعقدہ کئی محافل میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ سرن داس نے دوسرے دونوں بھائیوں کی نسبت لاہور کی ثقافتی زندگی پر زیادہ گہرے نشان چھوڑے۔ انہوں نے اپنے والد آنجہانی رائے بہادر میلہ رام کی لال کوٹھی کو لاہور کی سماجی‘ سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا۔ لال کوٹھی میں بہت سے ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ پیر مختار شاہ رضوی صاحب کے مطابق لال کوٹھی دو ایکڑ یعنی 16 کنال پر مشتمل تھی۔ کچھ علاقے پر بعد میں لوگوں نے قبضہ کر کے تعمیرات کرلیں۔