نیو یارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز نے رمضان المبارک کو مقدس مہینہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے اظہار ِ یکجہتی کرتے ہوئے ایک دن کا روزہ رکھے گا۔ اِس مقدس مہینے کی عظمت کے بارے میں اس نے آگاہی حاصل کی ہے کہ کس طرح روزہ انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بْرے کاموں سے روکتا ہے۔ اسنے بیان دیا ہے کہ اِس ماہ کا احترام ہر ایک پر فرض ہے۔ ایرک لیوری ایڈمز سابق امریکی پولیس آفیسر اورایک سو دسویں موجودہ مئیر نیویارک سٹی ہے۔ سیاست میں داخل ہونے سے قبل ایرک نے بیس سے بائیس سال نیو یارک سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کی ہے۔ جہاں وہ کیپٹن کے عہدہ سے ریٹائر ہوا۔ سیاست میں آنے کے بعد اس نے بروکلین میں بیسویں سینیٹ ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے 2006ء سے 2013ء تک نیو یارک سٹی سینیٹ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2013ء میں وہ پہلے افریقی امریکی تھا جسے بروکلین بار کا صدر منتخب کیا گیا۔ نومبر 2020ء میں ایرک نے نیویارک شہر کے مئیر کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ یوں ریپبلکن اْمیدوار سلائیوا کو تاریخی شکست دیتے ہوئے وہ شہر کے میئر منتخب ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب نیو یارک شہرمیں جرائم اور مجرمان کا راج تھا۔ کوئی شخص بنا رقم جیب میں لئے باہر اِس خوف سے نہیں نکلتا تھا کہ اگر اس کی جیب میں رقم نہ ہوئی تو مجرمان کے ہاتھوں جان گنوانے کا خطرہ ہوسکتا ہے ۔ پولیس افسر ہونے کے ناطے ایرک نے یہ فیصلہ کیا کہ یا تو نیویارک شہر میں جرائم پیشہ رہیں گے یا پھر شہر اْمن کا گہوارہ بنے گا۔ ایرک نے نیو یارک شہر میں سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس نفری بڑھا دی۔ ساتھ ہی اْن لوگوں کو گھرفراہم کرنے کی سہولت فراہم کردی جو گھر نہ ہونے کے سبب گاڑیوں میں سوجایا کرتے تھے۔ یوں محض دو سے تین سال میں نیویارک کو اپنی روشنیاں لوٹا دیں۔ یہ انسان دل جیتنا جانتا ہے۔ یہ غربت سے اْٹھا ہواشخص ہے جو غربت، مہنگائی، لاچارگی، دکھ درداور تکالیف کے مطلب جانتا ہے۔ 1960ء میں ایرک ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جو اِن کا اپنا گھر نہیں تھا۔ والدہ ڈوروتھی مائی ایڈمز سٹریٹر گھر و ں میں صفائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ والد قصائی تھے اور الکوحل کی لت میں مبتلا تھے۔ یہ اِ س قدر غریب گھرانہ تھا کہ اکثر اوقات ایرک سکول جاتے وقت اپنے بیگ میں اپنے باقی کپڑے لے کر جایا کرتا تھا کہ شاید واپسی پر کرایہ دار اِن کے والدین کو گھر سے نکال دیں اور اْنہیں کپڑے اٹھانے کی مہلت نہ ملے۔ پڑھائی کے بعد فارغ وقت میں ایرک گاڑیوں کے شیشے صاف کیا کرتا تاکہ اپنے والدین کا ہاتھ بٹا سکے۔ چودہ سال کی عمر میں ایڈمز کی زندگی میں ایسا موڑ آیا جس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اْس کی زندگی بدل دی۔ ایرک نے ایک جرائم پیشہ گینگ ’’سیون کراؤن‘‘ کو جوائن کیا جہاں وہ مختلف قسم کے چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث رہا۔ ایک طوائف سے لڑائی کی بدولت ایڈمز اور اْس کی ماں نے اْن کا ٹیلی ویژن سیٹ بیچ دیا جس پر دونوں گرفتار ہوگئے۔ پولیس نے حراست کے دوران اْنہیں بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا حتی کہ ایک کالے پولیس افسر نے مداخلت کی اور اْنہیں تشدد سے نجات ملی۔ بعد ازاں ایڈمز کو بچوں کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں مقدمہ چلا اور اْس کے بعد سزا ہوگئی۔ اِس واقعہ نے اْس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اس واقعہ کے بعد ایرک نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں پولیس افسر بنے گا۔ ایڈمز کی یہ خواہش تھی کہ وہ پولیس فورس جائن کرنے کے بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اصلاحات لائے گا۔رہائی کے بعد ایڈمز نے اپنی ساری توجہ پڑھائی پر صرف کردی۔ یوں 1978میں ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایڈمز نے کالج میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی موٹر میکینک اور بروکلین ڈسٹرکٹ کے اٹارنی کے دفتر میں کلرک کی ملازمت اختیار کرلی۔ ایرک نے تعلیم جاری رکھی اور نیویارک شہر کے کالج آف ٹیکنالوجی سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں مریسٹ کالج سے ایم پی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایڈمز نے پولیس شعبہ کو جائن کرلیا جہاں تقریباََ بیس سے بائیس سال گزارے۔ 1990ء میں ایرک ایڈمز کو ’نیشن آف اسلام‘ نام کی ایک سیکیورٹی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاجہاں مسلمانوں کے ساتھ میل جول بڑھانے کے مواقع میسر آئے۔ پانچ سال بعد ایرک نے ایک سو ساتویں میئر نیویارک سٹی روڈی گیولیانی کے ساتھ مل کر ایک ایڈووکیسی گروپ بنایا جس کا نام ’لا انفورسمنٹ میں 100ایسے آدمی جن کی اہمیت ہے‘ رکھا۔ اِس گروپ کا مقصد کالے امریکیوں کے خلاف ہونے والے پولیس مظالم اور نسلی تعصب کے خلاف آواز اْٹھانا تھا۔اِس گروپ کے پلیٹ فارم سے ایرک نے کالوں کے خلاف کئی نسلی تعصبات کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اِس حوالے سے اس کی خدمات کو کئی قومی اور بین الاقووامی پلیٹ فارم پر سراہا گیا۔حیران کن طورپر 9/11کے بعد ایرک ایڈمز وہ پہلے پولیس افسر تھا جو بطور فرسٹ ریسپانڈر اْس جگہ پر پہنچا اور دوسرے ممکنہ حملے کی صورت میں پولیس پارٹی کو یہی ایرک لیڈ کررہا تھا۔ بعد ازاں یہ سیاست میں آگیا اور کچھ ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں ترکی، اسرائیل، چین وغیرہ شامل ہیں۔ بعد ازاں اس نے ان ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے بھی سائن کئے۔ اِس دوران ایرک نے کئی ایسے قوانین بھی پاس کرائے جنہیں غیر منطقی کہا جاسکتا ہے مگر اس نے نیویارک سٹی کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ حال میں اس نے ماہِ رمضان کے حوالے سے یہ بیان دے کر نیویارک سٹی اور باقی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ دوسری جانب تیسری دنیا کے ممالک کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ جرم میں ملوث شخص بھی ملک کا نہ صرف کارآمد شہری بن سکتا ہے بلکہ وہ دوسروں کی زندگیاں بدلنے والا رول ماڈل بھی ہوسکتا ہے۔