کسی کی بھی حْب الوطنی پر شک کرنا کسی کی بھی نیت کے دام لگانا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔ موجودہ ملکی حالات میں خیال آتا ہے کیا یہ پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ کی آزمائش ہے؟ کیا یہ پی ٹی آئی کی آزمائش ہے؟ کیا یہ عوام کی آزمائش ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ عوام کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیئے۔ غور کریں کہ ناپ تول سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک ہم آپس میں ہی لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں تو پھر اربابِ اختیار سے شکوہ کیسا؟ جب عوام ہی آپس میں منقسم ہوں اور لین دین کے معاملات میں جھوٹ بولتے ہوں تو اوپر بھی خرابی ہی ہو گی۔ ن لیگ کی چیف مریم نوازکی تقاریر سن لیں تو انہوں نے عمران، عمران، عمران کے سوا کبھی کوئی تعمیری بات نہیں کی ۔ بھئی آپ ہمیں کوئی اپنی حکمتِ عملی بتائیں۔ پچھلے آٹھ دس ماہ سے دہشت گردی نے نا حق لوگوں کو اندھا دھند مارنا شروع کر دیا۔ مہنگائی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔مہنگائی اب رسوائی میں بدل گئی ہے۔ ریاستِ پاکستان کی سب سے اہم کتاب 1973ء کا آئین ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اس آئین کو منظور کیا۔ پاکستان کے ہر شہری کو ہر طرح کے سیاسی سماجی، معاشی، ثقافتی اور انسانی حقوق حاصل ہیں۔ پبلک سب جانتی ہے۔ اس آئین میں بہت سی شقیں ان تمام چیزوں کی ضامن ہیں۔ آئینِ پاکستان سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کے بنیادی، سیاسی، سماجی، انسانی، معاشی اور ثقافتی تمام حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کرنا ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آئین کے مطابق تمام صاحبِ اقتدار قوتیں عوامی حقوق کے لیے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ مِلوں، کارخانوں، کھیتوں اور اِن میں کام کرنے والے مزدوروں محنت کشوں اور دہقانوں کو بھی آئین کے بنیادی معاشی حقوق نہیں ملتے۔ آئین کے مطابق حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ عدلیہ ہر طرح کے اثرو رسوخ اور مداخلت سے آزاد ہوگی۔ انتظامیہ اور دیگر شعبوں سے بھی عدلیہ کو الگ رکھا جائے گا تاکہ عوام کو انصاف مہیا ہو سکے۔ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کا بیڑا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس کہ پاکستان میں آئین نافذ ہونے کے بعد بھی غربت اور استحصال کم نہیں ہوا۔ ہمارے وطن میں سیاست کا مرکز شخصیات پرستی ہے جو بادشاہت کے نشے میں دْھت دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں جب تک عوامی حکومت نہیں آئے گی ترقی نہیں ہوگی۔ محکوم طبقات، سرمایہ دارانہ نظام، خواتین اور نوجوانوں کو جب تک ترقی یافتہ نہیں بنائیں گے برابری محض ایک سراب ہی رہے گی۔ عوامی سطح تک اقتدار امنتقل کیے بغیر خوش حالی محض ادھورا خواب ہے۔ ن لیگ کی نئی چیئر پرسن مریم نواز سے ایک نجی ٹی وی کے انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ لوگ کہتے ہیں آپ شاہانہ زندگی گزارتی ہیں۔ برانڈڈ کپڑے پہنتی ہیں تو عوام کا دکھ کیسے محسوس کریں گی۔ جواب میں مادام کہنے لگیں کہ اچھے کپڑے پہننا اچھے ذوق کی نشانی ہے۔ محترمہ شاید یہ بھول گئی تھیں کہ اسی انٹر ویو میں انہوں نے ایک مشہور ڈیزائنر کا 40 ہزار روپے کا لان کا جوڑا اور بائیس لاکھ روپے کے برانڈڈ جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ یعنی ایک غریب ملک میں جہاں سات آٹھ دن کی روٹی کھانے کے لیے آٹے کے تھیلے کے لیے دن بھر لائنوں میں لگنا پڑتا ہے وہاں کے سیاست بازوں کی اولادیں اپنے عمدہ ذوق کو دکھانے کے لیے فقط ایک ہی دفعہ پہننے کے لیے لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں۔ جب بھی ان کی حکومت آتی ہے یہ لوگوں کو دو دو روپے د ے کر ان کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں۔ بھَلا سوچیے مفت آٹا یعنی ایک دس کلو کا آٹا لینے کے لیے عورتیں پولیس کے ڈنڈے اور غیر مردوں کے دھکے کھاتی ہیں۔ آخر کو یہ آٹا اگر دکھاوے کے لیے مفت ہی دینا ہے تو دکانوں پر آٹے کی سستی دستیابی کو عام کیا جائے تاکہ لوگ خوشی خوشی سے سو دو سو رپے میں آٹا لے لیں۔ لیکن نہیں! پھر پتہ کیسے چلے گا کہ ہم بڑے دیالو ہیں، مفت آٹا دے رہے ہیں لوگ بیچارے آٹے کی لائنوں میں مر رہے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق ہر شہری اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے۔ ووٹ دینا بے شک ایک اہم سیاسی فریضہ ہے اور عوام اپنی بالا دستی کا اظہار انتخابات کے موقع پر ہی کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت آئین شکنی کر کے الیکشن ملتوی کیے جا چکے ہیں۔ ہر شہری الیکشن میں امیدوار بھی بن سکتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر فرد کو اختلافِ رائے کا حق حاصل ہے اور جائز تنقید کے لیے حکومت کی طرف سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہونا چاہیئے۔ اب تھوڑی سے بات کرپشن کی کر لیتے ہیں۔ پبلک کو سب پتہ ہے کہ کرپشن کے معنی بہت وسیع ہیں۔یہ بدعنوانی، بد اخلاقی، فساد، انحراف اور بگاڑ وغیرہ کے زمرے میں آتا ہے۔ کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جس میں معاشرہ اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ عالمی تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں بھی انسدادِ بد عنوانی کی راہ میں ذاتی پسند نا پسند سنگین رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں اب آن لائن نظام کے تحت کرپشن کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ اگر ریاست شہریوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کر دے تو کرپشن کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ عوام کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ن لیگ کے اب تک تین استعفیٰ آچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن کی ایک طویل تاریخ دے دی ہے۔ وہ شاید یہ بْھول چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ہی عوامی رائے دہی کے ذریعے عوام میں سیاسی بیداری کا سبب بنتی ہیں۔ شہریوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے نظریات کے مطابق جس جماعت کو چاہیے ووٹ دے اور رکنیت حاصل کرے۔ تمام طاقتور اداروں کو معلوم ہونا چاہیئے پبلک یہ سب جانتی ہے۔