نئی حکومت کے قیام کے بعد رواں برس کا اب تک کا سب سے بڑا سفارتی واقعہ بلاشبہ ایرانی صدر ’’سید ابراھیم رئیسی‘‘ کا تین روزہ سرکاری دورہ پاکستان ہے۔ فلسطین، مشرق وسطی کی صورتحال ، چندہفتے قبل ہونے والی پاک ایران سرحدی کشیدگی اور ایران اسرائیل تنازعہ جیسے واقعات اس دورے کی اہمیت میںمزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ اپنے دورے کے دوران ایرانی صدر نے صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان سمیت پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت سے ملاقاتیںکی۔ وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میںکہا گیا کہ آئندہ پانچ برسوں میں پاک ایران تجارت کا حجم بڑھا کر دس بلین ڈالر تک لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ ایران کے صدر نے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کے بعد یہ بھی کہا کہ ’’ آج کی ملاقات میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین سیاسی، معاشی، تجارتی، ثقافتی سمیت ہر قسم کے تعلقات کو ہر ممکن حد تک فروغ دیا جائے‘‘۔ یہاں تک یہ بیان روائتی سا لگتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے بیانات ہر سربراہ مملکت کے دورے کے دوران دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس قسم کے بیانات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ ہو تو یہ بیانات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس موقع اور جن حالات میں ایرانی صدر کا یہ سرکاری دورہ پاکستان ہوا، کوئی وجہ نہیں کہ یہ مشترکہ اعلامیہ روائتی کی بجائے دونوں ممالک کے حکومتوں اور عوام کے دل کی آواز ہو۔ خاص طور پر اس لیے کہ ایرانی صدر نے گفتگو کرتے ہوئے ایک اور نہایت اہم بات بھی کی کہ ’’ شاید کچھ ایسے افراد بھی ہوں جو ہم دونوں ممالک کے مابین اچھے اور دوستانہ تعلقات کے فروغ کے حق میں نہیں۔لیکن نہ تو وہ اہم ہیں اور نہ ان کی کسی کو پرواہ ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم نے دونوں ممالک کے مابین اچھے اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے‘‘۔ اس خطے میں اگر ہم دیکھیںکہ کون چاہتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میںگرمجوشی پیدا نہ ہو تو پہلا نام جو ذہن میں آتا ہے وہ بھارت ہے۔ ایرانی حکومت یہ سمجھ چکی ہے کہ اسے اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے اور انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ ایران بھارت کی خاطر پاکستان سے تعلقات کو دائو پر لگانے کو تیار نہیں؟ یہ ایک خوش آئند اور بہت بڑی سیاسی اور سفارتی تبدیلی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ مشترکہ اعلامیہ میں کشمیرکا ذکر بھی کیا گیا اور کہا گیا ہے ’’پاکستان اور ایران اتفاق کرتے ہیں کہ کشمیرکا مسئلہ پر امن ذرائع سے وہاں کی عوام کی امنگوں اور عالمی قوانین کے مطابق حل کیا جانا چاہئے‘‘۔ ایسے حالات میں جب بھارت یک طرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیرکو بھارت کا حصہ قرار دے چکا ہے، ایران کی جانب سے کشمیرکو ایک حل طلب تنازعہ قرار دینا پاکستان کی ایک بڑی اور اہم سفارتی کامیابی بھی ہے اور کم از کم اس دورے کی سب سے اہم اور بڑی خبر بھی۔ اس کے فوری بعد بھارت نے پاک ایران مشترکہ اعلامیہ میں کشمیرکو حل طلب مسئلہ قرار دینے پر اعتراض بھی کیا اور نئی دہلی نے سرکاری طور پرکہا کہ بھارت یہ معاملہ ایرانی حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایرانی دفتر خارجہ کو اس بھارتی رد عمل کا اندازہ ہو گا اور اس طرح کے بیانات بہت سوچ سمجھ کر دیے جاتے ہیں۔ ایران کے جھکائو میں اس بڑی تبدیلی کی وجوہات میں عالمی صورتحال، مشرق وسطی کے حالات اور ایران اسرائیل کشیدگی شامل ہیں، لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے اور اب یہ ہم پر ہے کہ ہم جھکائو میں اس تبدیلی کو ایک دیرپاسفارتی فتح میں کیسے تبدیل کرتے ہیں۔عالمی تناظر میں امریکہ بہادر کو پاک ایران تعلقات کا فروغ ایک آنکھ نہیں بھائے گا۔ ان بیانات کے فوری بعد امریکہ بہادر نے ایران سے تعلقات اور تجارت کے فروغ کی صورت میں’’ پابندیاں‘‘عائد کرنے کی دھمکی دینے میں دیر نہیں لگائی۔ اس دھمکی سے ڈرنے کی بجائے ہمیں پاک ایران تجارت کو دس ارب ڈالر تک بڑھانے کے ارادے کے ساتھ ساتھ،پاک ایران گیس پائپ لائن اور ایران سے ممکنہ سستے پٹرول کی دستیابی کو ذہن میں رکھنا ہو گا جو پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری توانائی کی ضروریات کو نہ صرف پورا کر سکتے ہیں بلکہ شاید پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران پڑول اور گیس کی فروخت سے کمائے گئے پیسے کو فلسطین، لبنان اور شام میںحماس، حزب اللہ وغیرہ کی حمایت میں استعمال کرتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین، ترکی،جاپان، جنوبی کوریا سمیت بھارت ایران سے پیڑول خرید ر ہے ہیں اور ان ممالک کے بارے میں امریکہ کی آنکھیں بند ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سوا دو لاکھ بیرل روزانہ پٹرولیم ایسے ممالک کو فروخت کرتا ہے جو نامعلوم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں کچھ یورپی ممالک بھی شامل ہیں جو خفیہ طور پر اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ امریکہ کی پابندیوں کی دھمکی مشرق وسطی میں ایران کے رسوخ کو روکنے سے زیادہ پاکستان کے توانائی کے حالات کو دگرگوں رکھنے کی کوشش ہے ۔ توانائی کے بغیر نہ تو عوام کو کوئی ریلیف مل سکتاہے نہ فیکٹریاں چل سکتی ہے نہ روزگار اور معیشت کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان یہ غور اور فیصلہ کرے کہ کیا واقعی امریکہ پاکستان پر پابندیاں لگا دے گا اور اگر لگا بھی دے تو عملی طور پر پاکستان کا کیا نقصان ہے؟ اگر ہم امریکی دبائو میں اس موقع سے فائدہ نہیں بھی اٹھاتے تو پاکستان کی معیشت اور توانائی کی کیا صورتحال ہو گی؟ کبھی نہ کبھی تو ہمیں امریکہ کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے فیصلے خود اور اپنی مرضی سے لینے ہیں۔ اب نہیں تو کب؟