پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کے کاشت کاروں کی شکایت رفع نہ ہونے اور کسانوں کے شدید احتجاج کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے گندم کی فوری خریداری کا حکم دیا ہے۔وزیر اعظم نے گندم خریداری کا ہدف بڑھا کر 1.8 ملین میٹرک ٹن کر دیا ہے،انہوں نے پاسکو کو ہدایت کی ہے کہ وہ شفاف طریقہ کار اپناتے ہوئے کسانوں کی سہولت کو ترجیح دے۔پنجاب گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔صوبائی کابینہ کی جانب سے رواں برس کے لئے گندم خریداری پالیسی کی منظوری کے بعد، محکمہ خوراک نے صوبے بھر میں قائم اپنے 393 خریداری مراکز کے ذریعے 22 اپریل 2024 سے گندم کی خریداری شروع کر رکھی ہے۔صوبائی محکمہ خوراک کے مطابق باردانہ کی تقسیم 19 اپریل 2024 سے شروع ہو چکی ہے، ان مراکز پر گندم کی وصولی 22 اپریل سے شروع ہو گی۔ چھوٹے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے باردانہ کے حصول کی اہلیت کو 6 ایکڑ تک کی اراضی تک محدود کر دیا گیا ۔اس پالیسی پر صوبائی اسمبلی میں تنقید کی جا رہی ہے جبکہ کسان پہلے ہی سڑکوں پر ہیں۔ حکومت کی نا اہلی کئی طرح سے عیاں ہو رہی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ محکمہ کے پاس پچھلے سیزن سے گندم کا 2 ملین میٹرک ٹن بچا ہوا ذخیرہ پڑا ہے۔ پنجاب میں گندم کی سپورٹ پرائس 3900 مقرر کی گئی ہے جسے پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے کسان مسترد کر چکے ہیں۔ گندم کی پیداوار ، ذخیرہ ، کل استعمال اور برآمد و درآمد کے معاملات ہمیشہ جلد بازی میں مخصوص گروپوں کی مرضی سے طے پاتے رہے ہیں۔یہ امور پالیسی کا حصہ بنتے ہیں ۔کسان کو پالیسی طے کرتے وقت نظر انداز کیا جاتا ہے ،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوراک کے معاملے پر ملک خطرات کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سرکاری شعبے میں گندم ذخیرہ کرنے کی کل گنجائش تقریباً 5.2 ملین ٹن ہے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے میں عموماً بڑی کمپنیاں 1.3 ملین ٹن گندم ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار میں فارم ہاوسز اور مقامی تاجروں کا ذخیرہ شامل نہیں ہے۔پبلک سیکٹر کے محکموں میں اناج ذخیرہ کرنے کی ناکافی گنجائش ملک کے لئے تشویشناک ہے کیونکہ خریدی گئی گندم کا ایک بڑا حصہ کھلے میں رکھا جائے گا یا یہ نجی گوداموں کے رحم و کرم پر ہو گا۔اضافی گندم کی خریداری میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کی نااہلی کے نتیجے میں پچھلے کئی سالوں میں اناج ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ محکمہ خوراک پنجاب کے پاس تقریباً 2.18 ملین ٹن گندم ذخیرہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش ہے جبکہ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو)صرف 0.8 ملین ٹن تک ذخیرہ کر سکتا ہے۔کیری اوور سٹاک کی وجہ سے محکمہ خوراک کے پاس اس سال ذخیرہ کرنے کی گنجائش 20 لاکھ ٹن سے کم ہے جبکہ پاسکو کے پاس اس سال گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس کے گوداموں میں تقریباً 700,000 ٹن چاول موجود ہے۔ محکمہ خوراک سندھ کے پاس بھی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ محکمہ خوراک سندھ کا گندم خریداری کا ہدف 1.2 ملین ٹن ہے۔اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 70 لاکھ ٹن یا تقریباً 80 فیصد گندم کھلے گوداموں یا کرائے کے گوداموں میں ذخیرہ کی جائے گی۔ ملک میں اناج کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت کو 0.5 ملین ٹن کی گنجائش والے سائلوز کی تعمیر کے لیے پاسکو کے پی سی ون کو آگے بڑھانا ہو گا۔یہ دونوں تجاویز کئی سال قبل وفاقی حکومت کو پیش کی گئی تھیں لیکن اب تک عمل سے محروم ہیں ۔ اسی طرح کے اقدامات پنجاب اور سندھ کے محکمہ خوراک کو بھی کرنے چاہئیں۔محکمہ خوراک پنجاب کا کہنا ہے کہ ذخیرہ کی دستیاب گنجائش کو بروئے کار لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مزید کہا کہ گندم کی بڑی مقدار کو کھلے میں ذخیرہ کیا جائے گا جسے ترپالوں اور پولی تھین کی چادروں سے مناسب طریقے سے ڈھانپ دیا جائے گا۔ گندم کی فصل آنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے گندم کی درآمد ایک اہم سکینڈل بن چکی ہے۔اس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخ انتہائی کم ہیں ۔ وزیر خوراک پنجاب بلال یاسین نے نگران حکومت کی جانب سے گندم کی درآمد کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ایوان نے موجودہ گندم خریداری پالیسی کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔جمعرات کو پنجاب اسمبلی میں گندم خریداری پالیسی پر بحث کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ حکومت گندم خریدنا ہی نہیں چاہتی۔وزیر خوراک پنجاب نے کہا کہ گندم درآمد کرنے کا فیصلہ نگران حکومت نے کیا تھا اور اس اقدام کی تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ اس سے نئی فصل کی خریداری میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔سپیکر ملک احمد خان نے بھی ایم پی ایز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چھ ایکڑ سے زائد اراضی کے مالک گندم کے کاشتکاروں کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔اپوزیشن کے ایم پی اے رانا شہباز نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف 2.2 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کے پالیسی فیصلے کے خلاف 35 لاکھ ٹن اناج کیسے درآمد کیا گیا۔حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ کسان بنیادی فریق ہے جسے گندم خریداری پالیسی میں نظر انداز کیاگیا ہے۔بہتر ہو گا کہ گندم کی بوائی سے قبل اس کی امدادی قیمت کا اعلان کیا جائے اور ملکی ضرورت کی گندم حکومت خود خرید کر باقی اضافی مقدار برآمد کر دے تاکہ کسانوں کو معقول منافع مل سکے۔