آج کے ایک اخبار کی خبر کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب کو بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم اور بلدیاتی انتخابات کے انتظامات کے لیے مراسلے بھجوا دئیے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے آئندہ ماہ مشاورتی اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کی بجائے الیکٹرانک مینجمنٹ سسٹم ( ای ایم ایس ) کے ذریعے کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے حکومت پنجاب کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور آئی ووٹنگ قانون میں ترمیم کے احکامات بھی جاری کر دئیے ہیں۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو بلدیاتی قانون میں ترمیمی بل 2024 پنجاب اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ سچ پو چھیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی خبر پڑھ کر مجھے ایک خوشی سی محسوس ہوئی ہے اور اس کی ایک واضح وجہ ہے ! وجہ یہ ہے کہ میں نے ساری عمر سرکاری نوکری کی ہے جس میں زیادہ عرصہ حکومت پنجاب کے سول سیکریٹریٹ میں اور کچھ عرصہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں ۔ کہنے کو ہمارے ملک میں جمہوریت ہے لیکن میں اسے بالکل جمہوریت نہیں سمجھتا ۔ جمہوریت کیا ہے ! اس سلسلے میں امریکی صدر ابراہام لنکن کی کی گئی جمہوریت کی تعریف پوری دنیا میں گونجتی ہے اور وہ ہے ـ" Of the people , by the people, for the people " ڈیموکریسی کے الفاظ یونانی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یونانی زبان میں Demos کے معنی عوام ہیں اور Kratos کے طاقت ہیں ، سو ڈیموکریسی کے معنی ہیں عوام کی طاقت ۔ سو اس کے جامع معنی بنتے ہیں ، ایسی حکمرانی جو عوام کی خو اہش اور مرضی کے مطابق ہو ۔ خدا کے لیے سچ سچ بتائیں اپنے ملک میں حکمرانی عوام کی مرضی کے مطابق چلتی ہے ۔میں اپنے ملک میں رواں جمہوریت کو ’’ گنے چنے چند خاندانوں کی حکومت کہتا ہوں ‘‘ ۔ آپ اپنے ملک کے جس صوبہ میں بھی رہتے ہیں، آپ کو معلوم ہو گا کہ جب بھی اپنے ملک میں جمہوریت ہو گی تو یہ یہ خاندان کسی نہ کسی عہدہ پر بیٹھ کر ہم عوام پر حکمرانی کر رہے ہونگے۔ سچ پوچھیں مجھے تو اپنے ملک میں نافذ مارشل لاء کے ادوار میں زیادہ جمہوریت نظر آئی ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری فوج میں بڑی بڑی پوزیشنوں پر پہنچے لوگ بنیادی طور پر تو عام آدمی کی اولاد ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے خاندان کب اپنی اولادوں کو فوج میں بھرتی کراتے ہیں۔ شاید میری یہ بات میرے بہت سے احباب کو اچھی نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی ترقی ہوئی وہ مارشل لائوں کے ادوار میں ہوئی ۔میں جب سٹاف کالج میں اکیس (21 ) گریڈ کی پروموشن کے لیے ٹریننگ کر رہا تھا تو کچھ دوستوں نے پاکستان میں گزری حکومتوں کی کارگزاری اور نتائج کے سلسلے میں ایک ریسرچ کی تھی۔ جس کے نتائج غیر متوقع طور پر یہی نکلے تھے کہ اپنے وطن عزیز میں سب سے زیادہ ترقی اور خوشحالی مارشل لاء کے ادوار میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ میں نے اپنے ملک میں جمہوریت کی جھلکیاں اُن اداور میں دیکھیں جب یہاں بلدیاتی نظام رواں تھے ۔ وہ ادوار بھی ماشل لا وں کے زیر سایہ چلے ۔ میں نے اپنی نوکری کے دوران دیکھا کہ اپنے ملک کے سیاستدانوں کو بلدیاتی نظام بالکل اچھے نہیں لگتے اور وہ ان سے جان چھڑانے کے چکر میں رہتے ہیں ۔ بلدیاتی نظام کے دوران عام آدمی کے مسائل لوکل سطح پر حل ہو جاتے ہیں مثلاً یونین ناظم ان کی اپنی یونین کونسل کا رہنے والا ہوتا ہے جس تک رسائی ان کے لیے آسان ہوتی ہے اور ا سے وہ اپنا مسئلہ سنا سکتے ہیں ۔ ایم پی اے اور ایم این اے کا ایک تو حلقہ وسیع ہوتا ہے دوسرے یہ بڑے لوگ ہوتے ہیں جن کے گھر بڑے بڑے شہروں میں ہوتے ہیں جہاں تک عام آدمی اور غریبوں کی رسائی بہت مشکل ہوتی ہے ۔قانونی اور آئینی طور پر تو ہمارے ایم این اے (MNA ) اور ایم پی ( MPA ) کا کام تو آئین سازی اور قانون سازی ہوتا ہے ۔ اُن کا کام لوگوں کی پوسٹنگ ، ٹرانسفرز اور نوکریاں لگوانا نہیں ہوتا لیکن وہ مصروف ہر وقت انہی کاموں میں ہوتے ہیں۔ اُن کا کام گلیوں اور سڑکوں کو پختہ کرانا ، سیورج ڈلوانا اور پانی کی ٹینکیاں بنوانا بھی نہیں ہوتا لیکن وہ مصروف انہی کاموں میں رہتے ہیں ۔ وہ اپنے اصل کام جسے قانون سازی کہتے ہیں کو سب سے کم توجہ دیتے ہیں حالانکہ آئین سازی ، اس میں وقت کے مطابق ترامیم اور پھر قانون سازی نہایت ہی اہم کام ہوتے ہیں ۔ آئین اور قانون نہ صرف وقت موجود کے لیے ہوتے ہیں بلکہ انہیں آنے والی نسلیں بھی بھگتتی ہیں ۔ لیکن بدقسمتی دیکھیں ، اپنے ملک کا یہ نہایت ہی اہم کام کرنے والوں کے لیے کوئی تعلیم بھی آئین میں درج نہیں ہے ۔ شاید آپ کو میری اس بات کا یقین بھی نہ آ رہا ہو! اپنے ملک میں کسی سرکاری محکمہ میں کلرک بھرتی ہونے کے لیے بھی میٹرک یا ایف اے(FA ) پاس ہونا ضروری ہے لیکن یہاں آئین ساز اور قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے بھی کسی تعلیمی سرٹیفکیٹ یا ڈگری کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ خود سوچ لیں، کہ ہم کس ملک میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔شاید آپ کو یاد ہو کہ اس ملک کے ایک صدر جنرل پرویز مشرف نے جسے ایک ڈکٹیٹر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے یہ درج کرایا تھا کہ پاکستان کی کسی بھی قانون ساز اسمبلی کا ممبر وہی شخص بن سکے گا جو گریجوایٹ( Graduate ( ہو گا۔ یہ ترمیم تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی! جنرل پرویز مشرف کے جاتے ہی ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے اس آئینی شق کو یوں اُڑایا کہ اللہ کی پناہ ۔ اس آئینی شق کو اُڑانے میں جناب محترم زرداری صاحب نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔بات ہم کر رہے تھے اپنے ملک میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات کی ! تو حضور ، یہ بڑا خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کا خیال آیا ، یہ انتخابات ای وی ایم ( EVM ( کے ذریعے ہوتے ہیں یا کسی اور طریقے سے ، بس ہونے چاہیں ۔جس کو بھی یہ سوچ آئی اس کی توصیف کرنی چاہیے اور ان تمام کاموں جیسے قانون میں ترامیم اور الیکشن کی تیاریوں کو پوری توجہ سے اور جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہچانا چاہیے ۔ بلدیاتی اداروں کے فعال ہونے سے ہی اپنے ملک میں ایک جمہوری ماحول بنے گا ۔