مدثر بشیر کیا ہے‘ اس کے کتنے گن گرویدہ کرتے ہیں اس پر بات نہیں کروں گا۔ ابھی میں اس کی پنجابی کہانیوں کے سحر میں ہوں۔’’چھتی چوبارہ‘‘ ایک کہانی کا نام ہے جسے 29کہانیوں کے مجموعے کا نام بنا دیا گیا۔ کچھ کہانیاں مختصر ہیں۔ مدثر بشیر کی کہانیوں میں اوپرا پن نہیں‘ کرداروں کے نام اور ماحول لاہور شہر والا ہے۔ کہانی چھتی چوبارہ اندرون لاہور کے ایک ایسے کوچے سے جڑی ہے جہاں قدیم وقتوں سے مائیاں رانیاں رہتی ہیں‘ مافوق الفطرت رانیاں ہندو کردار ہیں۔ لوگوں نے گلی کے اندر چراغ رکھ دیے ہیں جن میں سرسوں کا تیل جلتا ہے‘ اگربتیاں جلتی ہیں۔ لوگ رنگ پھینکتے ہیں۔یہاں کے لوگ اپنی چھتوں پر جھولے رکھ دیتے ہیں ۔ان کا یقین ہے کہ مائیاں رانیاں وہاں آتی ہیں ،جھولا جھولتی ہیں۔ میں جب لاہور پر کالم لکھ رہا تھا تو اس علاقے کی ایک خاتون نے فون پر مجھے چھتی چوبارہ کی مائیوں رانیوں کی کہانی سنائی تھی۔ مدثر بشیر نے اسی گلی کے ماحول سے ایک پرتجسس کردار تخلیق کیا‘اس کردار کو اردگرد سے جوڑا‘یہ کردار ایک خواب کا ہاتھ پکڑ کر ولایت سے ہوتا واپس اپنے آبائی دیس آیا۔ پھر اس خواب کے ٹکڑے اور تصویریں آپس میں ملتی گئیں۔ بی بی رحمتے جو رضائیاں سلائی کرتی تھی۔ وہ دس سال پہلے خواب دیکھنے والی کے لئے سرخ رضائی چھوڑ کر انتقال کر گئی۔ خواب دیکھنے والی اس کی بیٹی کے گھر اتفاقاً آ پہنچتی ہے۔ رضائی کی بات کرتی ہے‘ یہاں کہانی میں ایک بھید بھرا اختتام داخل ہوتا ہے۔ رحمتے کی بیٹی خواب کے تعاقب میں آنے والی خاتون سے نام پوچھتی ہے تو وہ بتاتی ہے ’’رانی‘‘ ۔ پھر یہ رانی چھتی چوبارہ کی طرف گم ہو جاتی ہے۔ رانیوں کے پراسرار کردار اور چودھریوں کی نونہہ ’’رانی‘‘ کا کردار الگ کرنے کے درمیان واقعات اور خیالات کو جیسے ترتیب دیا گیا وہ ہنر مندی بتاتی ہے کہ مدثر بشیر کو اس عہد کی نمائندگی کا حق ہے۔ ’’بلیاں کتے‘‘ یہ پہلی کہانی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار 1971ء کی جنگ میں بھارت کی قید میں چلا جاتا ہے۔ اس کے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ قید کے دوران کھانے میں پسے شیشے کے خوف سے وہ اپنا سالن قید خانے کی دیوار کے ساتھ پھینک دیتا ہے۔ وہاں کی بلیاں یہ کھا لیتی ہیں۔ پھر یہ معمول بن جاتا ہے۔ محافظ اسے کوئی برگزیدہ انسان سمجھ کر اضافی کھانا دیتے ہیں‘ قیدی وہ بھی بلیوں کو ڈال دیتا ہے۔ چار پانچ سال بعد رہا ہو کر واپس آتا ہے تو اس کی بیوی کی شادی اس کے بڑے بھائی کے ساتھ کی جا چکی ہوتی ہے‘تینوں بیٹے اسے پہچانتے نہیں‘ بھائیوں نے مردہ جان کر اس کی زمین اپنے نام لگوا لی۔ وہ اسے دھتکار دیتے ہیں۔ خاندان چھوڑ کر شہر آتا ہے‘ مزدوری کر کے ایک پلاٹ کے پیسے جوڑتا ہے جو فراڈیا لے جاتا ہے۔ مایوس ہو کر ایک مزار پر جاتا ‘ جہاں بے ہوش ہو جاتا ہے‘ ہوش آتا ہے تو اردگرد چند سکے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہ مستقل گلی کی نکڑ پر بیٹھ جاتا ہے۔ جو ملتا ہے وہ بلیوں کتوں کو کھلا دیتا ہے۔ لوگ اس کو ولی اللہ سمجھ کر آنے لگتے ہیں۔مصنف کو اس کی ذات سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے،وہ اس کی باتیں سنتا ہے، لوگوں کو وہاں آتے دیکھتا ہے۔بلیوں اور کتوں سے محبت کی تاویلات سوچتا ہے۔ پھر یہ بابا غائب ہو جاتا ہے۔مصنف بے چین ہوتا ہے، وہ اس کی بابت لوگوں سے پوچھتا ہے لیکن کوئی بھی پتہ نہیں بتا پاتا۔ ایک دن مصنف اسے ڈیفنس میں خاتون کے ساتھ کار میں دیکھتا ہے پھر وہ اس خاتون کے گھر جا پہنچتا ہے۔ وہ خاتون اپنے خاوند اور دو بیٹوں کو دہشت گردی کے واقعہ میں کھو چکی ہے۔ آوارہ کتے اور بلیوں سے محبت کرتی ہے۔ وہی مرکزی کردار کو اس کی بلیوں سمیت اپنے گھر رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔دونوں مل کر جانوروں کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ کام ان کے دکھوں کا احساس کم کرتا ہے‘انہیں انسانوں سے جو تکلیفیں پہنچی ہیں ان کا ازالہ کرتا ہے۔ کبھی کبھی جانور بھی دکھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔ کہنے کو یہ کہانی سادہ ہے لیکن اس میں ٹھہر ٹھہر کر کہانی جس طرح آگے بڑھائی گئی ہے وہ غیر معمولی طور پر زبان اور خیال پر کنٹرول کی علامت ہے۔جانوروں سے دوستی انسان کی داخلی بے اطمینانی کو کم کرتی ہے۔جانور بے لوث پیار کرتے ہیں۔ ایک کہانی ’’انکل‘‘ ہے ۔انکل لاہور کی پرانی آبادیوں کا کردار ہے جو ہمسائیوں اور محلے داروں کا احترام کرتا ہے‘ ان کے کام کرتا ہے۔ ایک نسل کو ہاتھوں میں کھلاتا ہے تو دوسری اور تیسری نسل کی مدد بھی اپنا سمجھ کر بے لوث کرتا ہے۔ لیکن اس انکل کو کبھی غیر متوقع طور پر ان ہی پیار کرنے والے رشتوں سے جب اچانک جوابی محبت ملتی ہے تو ایک کہانی بن جاتی ہے۔پوری کہانی عام سا واقعہ رکھ کر آکری دو تین جملوں میں اسے خاص بنا دینا داد کے قابل ہے ۔یہ کام مدثر بشیر جیسا لکھاری ہی کر سکتا ہے۔ مدثر بشیر کینیڈا کے ’’ڈھاباں‘‘ انٹرنیشنل ایوارڈ سمیت کئی عالمی اعزازات رکھنے والا ادیب ہے۔ میرا اس سے پہلا تعارف لاہور پر اس کا کام ہے۔ دوسرا تعارف بطور شاعر ہوا‘ اب افسانوں کی کتاب پڑھی تو سوچ رہا ہوں اسے کیا لکھوں۔ مدثر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس نے جو پنجابی زبان اور الفاظ استعمال کئے وہ عام بول چال کے ہیں۔ یوں یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ مشکل زبان لکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں دو دنوں میں آسانی کے ساتھ 175صفحات پڑھ گیا۔ چھتی چوبارہ کا دیباچہ الگ سے ایک سوغات ہے جس میں مدثر بشیر نے انگریزی‘ اردو اور پنجابی میں لکھنے والوں کا تقابل اس طرح کیا ہے کہ سماجی رویے اور حکومتی پالیسیاں منافقت کی شکل میں سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ کتاب فکشن ہائوس لاہور نے شائع کی ہے۔