جج ہمایوں دلاور کی وضاحت بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔ دوران سماعت انہوں نے وضاحت کی کہ فیس بک پیج تو انہی کا ہے مگر چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف پوسٹیں انہوں نے نہیںلگائیں۔ یہی معاملہ کیس کے ٹرانسفر کی بنیاد بن کر اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ واپس ہائیکورٹ کورٹ کے پاس بھجوا تو دیامگر ابھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو پا رہا۔ گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو جب اس بارے میں بتایا گیا تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ظاہر ہے کئی سوال خود جسٹس عامر فاروق کے ذہن میں بھی ابھرے ہوں گے۔ پہلا سوال یہ کہ اگر فیس بک اکائونٹ ہمایوں دلاور صاحب کا ہی ہے تو پھر اس پر پوسٹس کوئی دوسرا کیسے کر گیا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب اکائونٹ ہیک ہو گیا ہو، تو کیا جج صاحب کا اکائونٹ ہیک ہو گیا تھا؟ اگر ہیک ہو گیا تھا تو جج صاحب نے دوہزار چودہ سے اب تک کہیں رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کیا ہیک کرنے والے نے اکائونٹ سے جج صاحب کی Access ختم کر دی تھی۔اگر نہیں کی تھی توہمایوں دلاور صاحب نے یہ پوسٹیں ڈیلیٹ کیوں نہیں کیں اور اگر ختم کر دی تھی تو پوسٹیں وائرل ہونے پر جج صاحب نے پیج کو لاک کیسے کیا؟ بہت سے سوال ہیں جن کا جج صاحب ایک ہی جواب دے رہیں کہ آپ فرانزک کرا لیںپھر اعتراض اٹھائیں۔ لیکن یہ بات جج صاحب بھی جانتے ہیں اور تحریک انصاف کی لیگل ٹیم بھی کہ جب تک فرانزک کی رپورٹ آئے گی،توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنایا جا چکا ہوگا۔ چیئرمین تحریک انصاف کی لیگل ٹیم نے پہلے یہ نکات ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں اٹھا کر درخواست کی کہ وہ اس کیس کی سماعت سے دستبردار ہو جائیں اور کیس کسی اور جج کے پاس ٹرانسفر کر دیں ۔ جج صاحب کے انکار کے بعد تحریک انصاف یہی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ لے گئی۔ خواجہ حارث اور ان کی ٹیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میںاسی کیس سے متعلق اس کے علاوہ بھی متعدد درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ٹیکس ریٹرنز میں اگر کوئی چیز ظاہر ہونے سے رہ گئی تو اس معاملے پر صرف ایک سو بیس دن کے اندر کارروائی ہو سکتی تھی، یعنی یہ معاملہ اب ٹائم بارڈ ہے۔ ایک درخواست یہ بھی ہے کہ یہ کیس پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے تھا وہاں سے سیشن کورٹ کے پاس آتا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ان تمام درخواستوں پر تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہو نہیں پارہی تھی جبکہ اس عدالت میں ٹرائل نہایت تیز رفتاری کے ساتھ انجام کو پہنچایا جا رہا تھا جس عدالت کے بارے میں اعتراضات ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تحریک انصاف کی لیگل ٹیم سپریم کورٹ چلی گئی اور درخواست کی کہ پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواستوں کو نمٹایا جائے ،پھر سیشن عدالت میں ٹرائل آگے بڑھایا جائے ، یعنی ٹرائل پر سٹے آرڈر دے دیا جائے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے سٹے آرڈر تو نہیں دیا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ سے کہا کہ ان تمام درخواستوں پر ایک ساتھ سماعت کر کے فیصلہ سنایا جائے۔اب اسلام آباد میں دوبارہ سماعت شروع ہو گئی ہے مگر ٹرائل کورٹ میں ہمایوں دلاوراپنے خلاف دائر ہونے والے تمام اعتراضات کے باوجود ٹرائل کو تیزی سے منطقی انجام کی طرف لے جا رہے ہیں اور دو دن کے اندر اندر فیصلہ کرنے کا بار بار عندیہ دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو خدشہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمنی درخواستوں کی سماعت میں سست رفتاری کے باعث نقصان یہ ہو گا کہ ٹرائل کورٹ سے فیصلہ پہلے آ جائے گا اور اعتراضات والی درخواستیں بے سود ہوکر رہ جائیں گی۔ ایسے میں چیف جسٹس عامر فاروق یہ کہہ کر درخواستیں نمٹا دیں گے کہ اب تو فیصلہ آ گیا ہے، اب ان درخواستوں پر سماعت کا فائدہ نہیں ۔لہذا اب فیصلے کی اپیل میں آئیے تو زیادہ بہتر ہے۔ کئی قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ماضی میں جب کسی جج پر متعصب ہونے کا الزام لگا اور اس کے شواہد بھی پیش کر دیے گئے تو ججز نے خود کو کیس سے الگ کر لیا۔ خود مجھے یاد ہے کہ جمشید چیمہ کی جانب سے شائستہ پرویز ملک کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے معاملے میں جب کاغذات نامزدگی پر اعتراض اٹھے تھے اور ان اعتراضات کے خلاف جمشید چیمہ لاہور ہائیکورٹ گئے تھے تو تین مرتبہ بینچ ٹوٹا تھا۔تینوں مرتبہ جج کی طرف سے کہا گیا کہ ان کا پرویز ملک فیملی سے ایک تعلق رہا ہے اس لیے وہ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتے ۔ پھر جسٹس جواد الحسن نے سماعت کر کے فیصلہ سنایا تھا۔یہاں مگر جج کے جانبدار ہونے کے خلاف باقاعدہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں مگر جج صاحب خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک روز تو کشیدگی اتنی بڑھی کہ وکیل کی جانب سے عدالتی عملے کے کنڈکٹ پر اعتراض اٹھایا گیا تو جج نے وکیل کو Shut Up کہہ دیا ، جواب میں وکیل نے جج ہمایوں دلاور کو You Shut Up کہہ دیا۔ جس سے عدالت کا ماحول کشیدہ ہو گیا اور کمرہ عدالت میں نعرے بازی شروع ہو گئی۔لیکن جج ہمایوں دلاور نے اس کے باوجود خود کو کیس سے الگ نہیں کیا بلکہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے دوران اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ وہ بھولیں گے نہیں اور بدتمیزی کرنے والے وکلا کے خلاف کارروائی کریں گے۔ خواجہ حارث روز سمجھاتے ہیں کہ جانے دیجے، معافی مانگ لی گئی ہے آگے بڑھنا چاہیے۔ہمایوں دلاور صاحب کو مگرعدالت میں نعرے بازی کا شدید رنج ہے اور وہ روزانہ اس کا ذکر کرتے ہوئے کارروائی کا اعادہ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی امیدیں اب اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہیں ، جسٹس عامر فاروق اگرمطمئن ہو گئے کہ ہمایوں دلاور چیئر مین تحریک انصاف کے حوالے سے متعصبانہ سوچ رکھتے ہیں تو وہ اس کیس کو کسی اور جج کے پاس ٹرانسفر کر سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے اپنا فیصلہ فرانزک رپورٹ پہ چھوڑ دیا اور سیشن کورٹ میں ٹرائل بھی نہ روکا تو پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے کسی نتیجے پر پہنچنے سے بہت پہلے ہی توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آ چکا ہو گا۔