مہنگائی اور بے روز گاری کے ستائے پاکستانی پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کے بعد بجلی بلوں جی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں ملک بھر میں لوگ اجتماعی طور پر بجلی کے بل جلا کر سول نافرمانی کا اعلان کر رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں یہ بھی شائد پہلی بار ہوا کے کہ خواتین اور بچے بھی احتجاجاً سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور حکومت سے ظالمانہ اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بظاہر ان مظاہروں کے پیچھے کوئی ملکی سطح کی جماعت اور تنظیم تو نظر نہیں آرہی ہے، بلکہ یہ مقامی طور پر منظم کاوشوں کا شاخسانہ لگ رہا ہے۔ مہنگائی کا بوجھ عوام کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے، بجلی کی بلوں میں اضافے کا جھٹکا تو اونٹ کی کمر ایک مزید تنکے کے بوجھ کے مترادف ہے۔ مگر کیا یہ دبے ہوئے غصے اورحکمران اشرافیہ سے نفرت کا اظہار کسی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟ میری ناقص رائے کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے اور اگر تبدیلی ممکن ہو بھی سکے تو اس کے لیے بھی لوازمات پورے ہونے چاہیں۔ پہلے تو مختصراً ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملکی سیاسی ڈھانچے کا معیشت میں وسائل کی تقسیم سے کیا تعلق ہے۔ یہ پہلو اس لحاظ سے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت میں مختلف طبقات پر ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ پاکستان کہنے کو تو ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے مگر یہاں سرمایہ دارانہ نظام کے مسابقتی رخ کا شدید فقدان ہے۔ بظاہر تو ملک میں معیشت کے سارے بڑے شعبے جیسے کہ زراعت، انڈسٹری اور خدمات ملکی مجموعی پیداوار میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مگر تقابلی بنیادوں پر پاکستان کی معیشت کا جدید ٹیکنالوجی اور اطوار اپنانے کا سفر سست نظر آتا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ ملک کے امیر اور باوسائل اشرافیہ کا غیرپیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کا ارتکاز ہے، جیسے کہ پراپرٹی، اسٹاک مارکیٹ، گاڑیوں اور سٹہ بازی کے دوسرے شعبے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اس قسم کی معیشت کی ترویح کرتی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اوپر سے مذہبی انتہا پسندی اور اس سے جڑی دہشت گردی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ ریاستی اداروں کی تزواتی گہرائی کے شوق نے ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے غیرمقبول جگہ بنادیا ہے۔ حکومتیں نہ ہی ٹیکس جمع کر پا رہی ہیں اور نہ ہی اپنے اخراجات کم کر رہی ہیں۔ ملک میں روزگار کے مواقع بھی نہیں پیدا ہورہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں کوئی اضافہ ہو سکے۔ حکومتی اور کاروباری گھٹ جوڑ نے ملکی مارکیٹ کو مختلف مافیائوں کی اجارہ داری میں تبدیل کردیا ہے۔ ریاستی جبر کا اپنا نظام اس غیر منصفانہ معیشت کی حفاظت میں جڑا ہوا ہے۔ حکومتی زعما اور ریاستی ادارے اپنی طاقت کی زعم میں پراعتماد ہیں کہ وہ معیشت کے غیر منصفانہ تقسیم کو کسی قسم کے عوامی چیلنج سے نبٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ درست بھی ہیں، کیونکہ جب تک عوامی احتجاج ایک بھرپور سیاسی تحریک کی شکل اختیار نہیں کرتا تب تک یہ نظام میں تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا ہے۔ یہ ہمارا ایک محتاط تجزیہ ہے کہ بجلی کے بلوں کے خلاف حالیہ ملک گیر احتجاج ملک کے استحصالانہ معاشی نظام پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالے گا۔ کوئی تبدیلی اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کوئی ملکی سطح کی جماعت اس عوامی غیض و غضب کو سیاسی تحریک میں تبدیل کرے۔ کچھ مذہبی اور بائیں بازو کی جماعتیں اس احتجاج میں اپنی آواز شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر متعدد وجوہات کی وجہ سے ان کا کوئی بڑا اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کو دائیں بازو کی جماعتیں کنٹرول کرتی ہے۔ اب اس وقت پی ٹی آئی کے علاوہ باقی مرکزی دھارے کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اپنے بقول انہوں نے اپنی سیاست تو قربان کردی ہے اور عوامی غم و غصے کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں کے طرف سے کسی بنیادی تبدیلی کے نعرے کو عوامی پذیرائی ملنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ریاستی جبر کا نشانہ بنی ہوئی تحریک انصاف کا دامن بھی روایتی دائیں بازو کی سیاسی اور معاشی سوچ سے جڑا ہوا ہے۔ اقتدار کی کشمکش میں اس کا ٹکرائو ریاستی اداروں سے ہوگیا ہے۔ اگرچہ اس استحصالی معاشی نظام میں بھی وہ کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکی، جس کی ان میں اس وقت صلاحیت نہ تھی۔ مگر یہ جبر کا وقت تحریک انصاف کو اپنی سیاسی احیاء کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ اقتدار کی منزل تو شاید ان کے لیے دور رہے، مگر وہ ایک لرزے ہوئے دقیانوسی معاشی نظام کے خلاف عوامی انتخابی نعروں کو اپنا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف ایک دائیں بازو کی جماعت ہے جس کی معاشی پالیسیاں ملک کی دوسری دائیں بازو کی جماعتوں سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ پر بدلتے ہوئے حالات میں ایک دائیں بازو کی جماعت بھی منصفانہ تقسیم کے نعرے کو اپنا سکتی ہے۔ اور اس منصفانہ تقسیم کا مطلب نجی ملکیت کو سرکاری تحویل میں لے کر اس کی آمدنی کو غریبوں میں تقسیم کرنا نہیں ہے۔ بلکہ نظام میں ٹیکسوں کا منصفانہ نظام، مراعات یافتہ طبقے کی سرکاری چھوٹ اور مراعات کا خاتمہ اور کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے پر بلاواسطہ ٹیکسوں کی کمی شامل ہے۔ تحریک انصاف نے کرپشن کے خاتمے کو پہلے ہی اپنا انتخابی نعرہ بنا کر اپنے لیے درمیانے طبقے میں انتخابی حمایت پیدا کی ہے۔ اب اگر وہ اس کے ساتھ منصفانہ تقسیم کے نعرے کو بھی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا لیتی ہے، تو ملک کے موجودہ حالات میں آبادی کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ حیرتکی بات یہ ہے کہ منصفانہ تقسیم بائیں بازو کی سیاسی سوچ کا نعرہ ہے مگر پاکستان میں اقتدار کے حصول میں ان کی پوزیشن نہایت کمزور ہے۔ ایک دائیں بازو کی سیاسی جماعت ہی اس پروگرام کو ایک مضبوط اور مربوط سیاسی حیثیت دے سکتی ہے۔ اپنی کمزور قبولیت کے باوجود تحریک انصاف اس بائیں بازو کے نعرے کے ساتھ اپنی مقبولیت کے سنگھاسن کو مزید مستحکم کرسکتی ہے۔