ایران میں نو پاکستانی مزدوروں کے قتل کے واقعہ کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان نے اسلام آباد میں عبوری وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاشبہ ایران اور پاکستان کے مشترکہ سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی قیادت اور حمایت کوئی تیسری طاقت کر رہی ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور پاکستان دہشت گرد گروہوں کی حمایت نہیں کرتے۔ ایرانی اور پاکستانی عوام کے لئے دو طرفہ تعلقات کو نقسان پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والے واقعہ کے بعد ایک دوسرے سے رابطہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا کام دے رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا ،اس بات کا امکان موجود ہے کہ ان کے دورے کو غیر موثر بنانے کے لئے کسی تخریبی قوت نے ایرانی علاقے میں پاکستانی مزدوروں کو قتل کیا ہو۔ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان سوموار کو پاکستان پہنچے، جس کے بعد انہوں نے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کے ساتھ دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہاکہ دونوں ممالک میں کبھی بھی علاقائی اختلافات نہیں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میکانزم باری باری ایران اور پاکستان میں مستقل بنیادوں پر ملاقات کرے گا تاکہ تعاون کے مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کی نگرانی کی جا سکے۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ دونوں پڑوسیوں نے ایک دوسرے کے تحفظات کو دورکرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون پر اتفاق کیا ہے۔جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ جو سرحدی مارکیٹیں قائم ہو چکی ہیں، ان کو جلد از جلد فعال کر دیا جائے گا۔انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ان کے ایرانی ہم منصب کا اس طرح کے مختصر نوٹس پر دورہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے دونوں جانب کے گہرے عزم کی گواہی دیتا ہے۔انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات نہ صرف ترقی کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ تعلقات میں استحکام کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔گزشتہ دنوں پاک ایران تعلقات کو اس وقت صدمہ پہنچا جب سولہ جنوری کو ایران نے بلوچستان کے سرحدی شہر پنجگور میں عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان میں حملے کیے ۔ پاکستان ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان عسکریت پسند گروہوں اور دہشت گردی جیسے معاملات پر تعاون و اشتراک کا ایک نظام پہلے سے کام کر رہا ہے۔ایران نے اس نظام سے رجوع کرنے کی بجائے براہ راست کارروائی کرکے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کردیں،پاکستان کی طرف سے شدید مذمت اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کا اشارہ دیا گیا ۔پاکستان نے اپنا سفیر واپس بلا لیا ۔یہ کشیدگی مزید بڑھ سکتی تھی لیکن پاکستان نے سرحدوں پر کارروائیاں کرنے والے کچھ دہشت گردوں پر ایرانی حدود میں حملہ کیا ۔اس کے بعد تہران اور اسلام آباد نے تیزی سے سفارتی توانائی کو کشیدگی کو کم کرنے اور کشیدگی کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے پر لگایا۔ سرحد پار سے ہونے والی ان حملوں سے دو طرفہ تعلقات پر یقیناً منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے لیکن پاکستان اور ایران کی قیادت نے دانشمندی کے ساتھ معاملات کو سنبھال لیا۔قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے، ایران اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع علاقہ دونوں ریاستوںکے حکام کے لیے طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہا ہے۔یہ بجا ہے کہ ایران پاکستان تعلقات میں سنگین مسائل ہیں اس صورتحال میں سب سے امید افزا یہ بات ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنے جوابی حملے کیے ہیں، تہران اور اسلام آباد کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور کم از کم پانچ اہم عوامل ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں فریق مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ دونوں فریقوں نے اپنے سفیروں کو دوبارہ سے معمول کے فرائض انجام دینے کی ہدایت کردی ہے ۔ سرحد پار حملوں کے نتیجے میں سفارتی تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام نے اس کشیدگی کو قبول نہیں کیا۔دونوں جانب آپسی بھائی چارے اور مل کر رہنے کی خواہش نے اس کشیدگی کی آگ پر پانی ڈالا ہے۔ اسلام آباد کے جوابی حملوں کے بعد ایرانی اور پاکستانی حکام کے درمیان سفارتی رابطوں نے مزید فوجی کارروائی کا سہارا لینے کے بجائے بات چیت میں شامل ہونے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور ایران ایسے خطے میں ہیں جس کے قریب مسلح تنازعات موجود ہیں۔فلسطین پر اسرائیلی حملے کے بعد بعض قوتیں اس جنگ کو پھیلا کر ان ممالک تک پھیلانا چاہتی ہیں جو اسرائیلی سفاکیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر یقینی طور پر مسائل ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے تاہم باہمی رابطوں میں ان قوتوں کی نشاندہی کی بھی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پھیلا رہی ہیں۔پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعاون پر مبنی ان منصوبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جو سی پیک منصوبوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر سکیں۔اس طرح خطے کی بڑی طاقت چین سکیورٹی امور میں مددگار کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کا فوری اثر مقتول پاکستانیوں کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی شکل میں نظر نہ آیا تو مسائل حل ہونے کی امید دھندلا سکتی ہے۔