بہاولپور خوش نصیب شہر ہے جسے نوابوں نے قلعوں، مساجد اور محلات سے مزین کیا۔ پاکستان کا بہترین ’صادق پبلک سکول‘ بہاولپور میں موجود ہے۔ایک طرف 1906ء میں جب مسلمانانِ برصغیر اپنی سیاسی جدوجہد کے لئے مسلم لیگ کا قیام عمل میں لارہے تھے، ٹھیک اْسی سال نواب آف بہاولپور یہاں ایک شاندار ’بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال‘قائم کررہے تھے۔ جب انگریز برصغیر میں مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے محروم کرنے کے درپے تھا تب نواب یہاں جامعہ اسلامیہ کی داغ بیل ڈال رہے تھے جو اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نام سے دنیا میں اپنی خاص پہچان اور مقام رکھتی ہے۔ نواب نے صادق ایجرٹن کالج اور صادق لائبریری جیسے تعلیم دوست اقدامات اْٹھا کر ریاست ِ بہاولپور کے عوام کو تعلیم سے محبت کرنا سکھایا۔ پنجاب کے جنوب مشرق میں صحرائے چولستان کے کنارے پہ آباد یہ شہر اپنے اندر سات ہزار سالہ ہاکڑہ تہذیب کی داستانیں اور راز سموئے ہوئے ہے۔اِس تاریخی شہر میں ضروریات ِ زندگی کی ہر سہولت و آسائش موجود ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، گورنمنٹ صادق وویمن یونیورسٹی، قائداعظم میڈیکل کالج،چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال، سول ہسپتال، ہوائی اڈہ، ریلوے سٹیشن، لاہور ہائی کورٹ کا بینج، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز کا ریجنل دفتر، سول سیکرٹریٹ،چڑیا گھر،ہاکی سٹیڈیم، ڈائرکٹوریٹ آف ہیلتھ، سمیت کئی ایسے دفاتر اور سہولیات موجود ہیں جو شہریوں کی زندگیاں آسان بناتی ہیں۔تقریباََ ہر برینڈ کی دکانیں، کمرشل سنٹر، ہاؤسنگ کالونیاں، پارکس، فوارے، لاری اڈا اور دیگر نجی بس اڈے اِس شہر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ کم گو اور دھیمے مزاج کے مالک صلح جو لوگ بہاولپور میں آنے والوں کے دل اپنے میٹھے بول سے موہ لیتے ہیں۔وہ ہر نووارد کو دل کہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اْمید کرتے ہیں کہ اْن کی آمد اِس شہر کے لئے مبارک ثابت ہوگی۔ یہ واقعی درست ہے اور جو لوگ بہاولپور سے ہوکر گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بہاولپوریوں کے دل ہر معزز مہمان کو دل کہ اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔یہاں یہ مثل مشہور ہے کہ جب کوئی نیا افسر بہاولپور ٹرانسفر ہوکر آتا ہے تو روتے ہوئے آتا ہے (کہ پتا نہیں کہ کہاں اْس کا تبادلہ کردیا گیا ہے) اور جب یہاں سے تبادلہ ہوکر کسی اور جگہ جانے لگتا ہے تب بھی روتے ہوئے جاتا ہے (کہ اس قدر خوبصورت شہر اور زندہ دل شہریوں کو چھوڑ کراْسے جانا پڑ رہا ہے)۔ اِس شہر کے مختلف شعبہ جات میں جب کوئی نیا افسر تعینات ہوتا ہے تو محض چند دنوں کے اندر ہی اْس کی طبعیت میں اِس شہر کی تاریخی حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس کی خوبصورتی اور شہریوں کیلئے سہولیات میں اضافے کا جذبہ جاگ اْٹھتا ہے۔کچھ عرصہ قبل یہاں ریجنل پولیس افسر نے آر پی او کے تاریخی گھر کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے محض چند ماہ کی تعیناتی کے دوران ہی اْسے اِس انداز میں بحال کیا کہ دیکھنے والے حیرت زدہ ہوجاتے ہیں۔تھانوں کی بحالی کا کام شروع کیا ہی تھا کہ اْن کا تبادلہ ہوگیا۔ ریجنل پولیس افسر ڈی آئی جی پولیس اہلکاران کی فلاح و بہبود کے علاوہ کمیونٹی پولیسنگ پر خصوصی توجہ دیئے ہوئے ہیں۔ لیکن بہاولپور کے تاریخی حوالوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کمشنر بہاولپور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور قابل ِ ستائش اقدامات اْٹھا رہے ہیں۔ پہلی بار کسی کمشنر نے نواب آف بہاولپور کو گارڈ آف آنر دینے کی تقریب منعقد کی ہے جس میں گورنر پنجاب انجینئر بلیغ الرحمان خود تشریف لائے اور گورنر پنجاب نے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے نواب آف بہاولپور کی قبر پہ پھولوں کا گلدستہ رکھا۔ دوسر ے لفظوں میں کمشنر بہاولپور کی جانب سے منعقد کی گئی تقریب حکومتی سطح کی تقریب بن گئی۔ یہ ایک شاندار تقریب تھی جسے وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔ خودنواب خاندان کے افراد نے اِسے تاریخی تقریب قرار دیا۔ کمشنر بہاولپور نے قلعہ ڈیرآور کی بحالی کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔ منصوبہ کے مطابق قلعہ ڈیرآور کے گِرد ایک حد متعین کی جائے گی اور اْس کے اندر ایک نہر قائم کی جائے گی۔ تجاوزات کو ہٹا کر وہاں ایک اچھا ریسٹورینٹ، ٹھہرنے کا مناسب بندوبست کیا جائے گا۔قلعہ ڈیرآور کے قریب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پہلے ہی ڈاکٹر محمد عبداللہ کی زیر نگرانی بائیو ڈائیورسٹی پارک قائم کرچکی ہے جہاں صحرا کے فلورا اور فانا کو محفوظ کرنے سمیت تحقیقی منصوبہ جات پرکام ہورہا ہے۔ اگر کمشنر بہاولپور کا یہ منصوبہ کامیاب رہتا ہے تو واقعی صورتحال بہت بدل جائے گی۔ قلعہ کو اِس انداز میں بحال کیا جائے گا کہ یہ سیاحوں کے لئے دلکشی کی جگہ ہوگی۔ساتھ ہی اْنہوں نے بہاولپور کے تاریخی ملکہ نور کی یاد میں تعمیر کئے گئے ’نور محل‘ کی رومانوی داستان کو فلمانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ اِس حوالے سے اْنہوں نے مشہور ہدایتکار اور فلمساز سید نور سے بات کی ہے کہ نور محل اور ملکہ نور کے گرد ایک دستاویزی فلم بنائی جائے۔ یہ درست ہے اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے اور اِس فلم کی ڈائریکشن، کاسٹ اور پروڈکشن اْسی انداز میں مکمل ہوتی ہے جیسی توقع کی جارہی ہے تو شاید یہ فلم ’مغل ِ اعظم‘ جیسی فلم کو بھی پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں کمشنر بہاولپور ڈویژن نے تاریخی فرید گیٹ کے سامنے خالی پلاٹ میں ایک پرانی ٹرین کی ایک بوگی رکھوائی ہے جس میں ایک ریسٹورینٹ قائم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ بچوں کے جھولے لگائے جائیں گے۔ تاریخی بوگی میں قائم ریسٹورینٹ میں ٹرین کے مختلف سائرن بجائے جا رہے ہونگے اور ساتھ بچوں کی قلکاریاں ساتھ گزرنے والوں کا دل لبھادیں گی۔ پچھلے دِنوں ملاقات میں ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ جب یہ منظر دل لبھارہاہوگا تو ہوسکتا ہے کہ بچوں کی قلکاریاں سن کر ٹھیک پیچھے بچوں کی جیل میں موجود بچوں کے دل آزاری ہو۔ اِس لئے ہم نے سوچا کہ کتنا ہی اچھا ہوگا کہ ہم بورسٹل جیل میں موجود ستائس بچوں کی بحالی کے منصوبہ پر کام کریں۔ اب مختلف شعبہ جات کے باہمی تعاون سے بورسٹل جیل میں قید بچوں کی بحالی کا کام شروع ہونے لگا ہے۔ ساتھ ہی تتلیوں اور جگنوؤں کی افزائش ِ نسل کے منصوبے پہ بھی کام ہورہا ہے۔سننے کو یہ محض خواب سا لگتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ مگر ایسا ممکن ہوا ہے۔