ایک اخبار کو دئیے گئے انٹرویو کے مطابق صدر مملکت جناب عارف علوی نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد شامل تھی، اسی طرح سینٹ کے انتخابات کے موقع پر بھی وہ اثر انداز ہوئے ۔ ( اگرچہ ایوان صدر کے ترجمان کی جانب سے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کئے جانے کا روایتی جواز دیا گیاہے) مگر اس کے باوجود جو بات کہی گئی ہے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی نئی یا انوکھی بات تو نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کو ابتدا سے ہی دو ریاستی اداروں ، بیوروکریسی اور فوج ، کی بہ امر مجبوری تعاون کی ضرورت رہی تھی جو بعد ازاں سیاسی سرپرستی میں بدل گیا ۔ایوب خان جنہیں قائد اعظم سخت نا پسند کرتے تھے شومئی قسمت جنوری1951 ء میں فوج کے پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف بنے ۔ ان کے سیاسی رجحانات اور عزائم بڑے واضح تھے اس دور کی غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی نے ان کے عزائم کو اور تقویت دی۔ اکتوبر 1954ء میں وہ اپنی فوجی حیثیت کے ساتھ کابینہ میں وزیر دفاع کے طور پرشامل ہوئے۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب فوج کی قیادت اپنے سیاسی کردار کا تعین کر چکی تھی ۔پاکستان کے سیاسی مستقبل کی صورت گری کی روداد ایوب خان نے اپنی خود نوشت میں بیان کی ہے کہ کس طرح لندن کے ایک ہوٹل میں انہوں نے پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو ضم کرنے کا مشہور زمانہ ’’ ون یونٹ ‘‘ منصوبہ تیار کیا ۔ فوج اور اس کی قیادت کو اپنا یہ کردا ر ایسا بھایا کہ اکتوبر 1958 ء میں فوج نے آئین کو منسوخ کرتے ہوئے سیاسی حکومت کو بر طرف کردیا او ر پہلا ملک گیر ماشل لاء نافذ کردیا ۔عمران خاں کی حکومت کو جب تک جنرل باجوہ کا آشیر واد حاصل رہی اور جب تک عمران خان جنرل صاحب کے مشوروں ( صائب) کے مطابق سعادتمندی کے ساتھ عمل پیرا رہے ہر دو جانب سے ایک صفحے پر ہونے کا اظہار کیا جاتا رہا۔مگر جب جنرل باجوہ نے خود ان کے اعتراف کے مطابق فوج ( انہوں ) نے سیاست سے علیحدہ ( اور عمران خاں کے مطابق نیو ٹرل) رہنے کا یکطرفہ فیصلہ کر لیا تو پھر عمران خاں اپنی مخلوط حکومت کو بچانے میں کامیاب نہ رہ سکے۔جنرل باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے تاریخی تسلسل کا جس طرح اعتراف کیا اور پھر اب صدر مملکت نے،جو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں،اس بات کو تسلیم کیا کہ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹا ف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتخابات میں عمران خاں کی مدد کی تھی ۔ تاہم ان کی حکومت کے خاتمہ کے موقع پرعمران خاں کو یہ حمایت نہیں مل سکی جس پر وہ اپنے سابقہ محسن کے خلاف ہو گئے اور شکوہ کناں ہیں کہ جنرل باجوہ نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ عمران خان کا یہ رویہ ان کی حد سے زیادہ سادگی اور سیاسی نا سمجھی کا مظہر ہے۔ اقتدار میں وہ جس طرح بھی آئے حکومت میں آنے کے بعد انہیں اپنے سیاسی تعلقات اور دائرہ کار کو وسعت دینی چاہیئے تھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مسلسل بگاڑ کا شکار رہے۔ پھر وہ یہ بات بھی بھول گئے کہ جس طرح 2018 میں انہیں دوسروں کی حمایت حاصل تھی بعینہ 2022 میں یہ حمایت کسی اور سیاست دان یا سیاست دانوں کو بھی تو حاصل ہو سکتی ہے جو انہیں بحر حال مل بھی گئی تو شکوہ اور ملا ل کیوں؟ اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کی سیاست میں ۔کہانی تو وہی پرانی ہے صرف کردار ہی تو بدلے ہیں ۔ ایوب خان سے لے کر قمر جاوید باجوہ تک ہر ایک نے حسب موقع اور اہلیت سیاسی معاملات میں اپنے غیر آئینی کردار کو بحسن و خوبی نبھایا ہے اور سیاست دانوں نے ، بغیر کسی استثنا کے ، ہر دور میں اقتدار کے حصول کے لئے فوج کی قیادت کی طرف ہی دیکھا ہے ۔اب اگر فوج سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے جیسا کہ جنرل باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں اظہار کیاہے تو فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست دان اپنی سیاسی حمایت عوام میں مستحکم کریں سیاسی اشتراک عمل کے ذریعہ مفاہمت اور مکالمہ سے سیاسی مسائل کو حل کرنا سیکھیں۔کسی بھی نوعیت کا بحران ہو، اس کا حل سیاست دانوں کے پاس ہونا چاہیئے، سیاسی قیادت کی آزمائش بحرانوں کے حل تلاش کرنے میں ہی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سیاست دان اس مرحلے میں بمشکل ہی کامران ہوسکے ہیں ۔موجودہ سیاسی اور معاشی بحران جس میں ہر روز شدت آتی جارہی ہے ، اس سے نمٹنے میں سیاست دان آج بھی اس اہلیت اور تدبر کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں جووقت کا تقاضہ ہے۔سیاسی اشتراک عمل اور مفاہمت کی آج جس قدر ضرورت ہے، سیاست دان اس سے اتنے ہی دور ہیں۔سیاست دانوں میں اختلافات کا ہونا سیاسی عمل کا حصہ ہے مگر یہ اختلافات نفرت اور دشمنی کی حد تک جا پہنچیں ، جیسا کہ اب ہیں ، تو وہ کسی بھی صورت جمہوری سیاست کے لئے پسندیدہ نہیں ۔اس سے قطع نظر کہ اس کیفیت میں کس کا کتنا حصہ ہے سب کو موجودہ مشکل صورت حال سے نکلنے کے لئے مل کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی ۔معیشت ،سیاست اور داخلی سلامتی کے امور آج جس نہج پر ہیں وہ سیاست دانوں سے دور اندیشی اور دانائی کے متقاضی ہیں ۔ جمہوری سیاست میں ا قتدار کسی کا مستقل استحقاق نہیں ہوتا یہ عوامی رائے سے بدلتا ہے اور اسے تسلیم کرنا ہی جمہوری روایت ہے اس کے بغیر جمہوری سیاست کا چلنا محال ہے تحریک انصاف سمیت تمام ہی سیاسی جماعتوں کو اب یہ رمزسمجھ لینا چاہیئے ۔