اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اور دوسرے کو بُرا سمجھنا اور بُرا کہنا، چاہے وہ برے ہی کیوں نہ ہوں‘ کوئی اچھی بات نہیں۔اس لئے بھی کہ سوفیصد تو کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا۔آدمی خیرو شر کا مجموعہ ہوتا ہے۔کئی پہلوئوں سے وہ اچھا اور نیک ہوتا ہے تو کئی دوسرے زاویوں سے وہ خرابی اور برائی بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔اپنے آپ کو نیک‘ ایماندار اور پرہیز گار سمجھنا بڑی ناسمجھی کی بات ہے۔ اسی لئے آخری کتاب میں آیا کہ اپنے تقویٰ کے دعوے نہ کرو کہ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ تم میں متقی کون ہے؟ ہمارے خان صاحب کی کمزوریوں میں بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ وہ مخالف جماعتوں کے لیڈروں کو بے ایمان کرپٹ‘ چور اور لٹیرے سمجھتے بھی ہیں اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کرتے ہیں، ان کی سیاست کا مرکزی نکتہ یہی رہا ہے۔جب تک وہ اپوزیشن میں رہے یہی راگ الاپتے رہے اور جب حکومت میں آئے تو بجائے اپوزیشن جماعتوں کو یہ کہنے کے بھائی جو ہوا سو ہوا‘ آئو اب ہم مل جل کر ایمانداری اور خلوص سے اس ملک کی تباہ حال تقدیر سنواریں۔تم لوگوں نے جو لوٹ مار کی‘ وہ تمہارے اعمال ہیں‘ اس کا حساب خدا تم سے لے لے گا۔میرے ساتھ تمہارا معاملہ تعاون اور مدد کا ہونا چاہیے۔میں اس ملک کے ننگے بھوکے عوام کے دکھ درد دور کرنے آیا ہوں‘انصاف سے محروم خلقت کو عدل و انصاف دلانے آیا ہوں۔ آئو ہم تم مل جل کر اس عظیم مقصد کو پورا کریں۔نہیں خان صاحب نے ایسا نہیں کیا۔اگر وہ ایسا کرتے تو مجھے یقین ہے کہ خدا بھی ان کی مدد کرتا اور ان کے کام کو آسان کر دیتا۔جن الجھی ہوئی قومی گتھیوں کو وہ سلجھانے میں پریشاں حال اور بڑی حد تک ناکام رہے‘ وہ گتھیاں خدا کی تائید و نصرت سے وہ کامیابی سے سلجھا سکتے۔لیکن خود کو ایماندار‘ مصلح اعظم اور متقی سمجھنے والے خان صاحب نے ایسا نہ کر کے اقتدار سے محروم کر دیے گئے۔خداوند تعالیٰ ہی مسند اقتدار عطا کرتا ہے اور وہی عطا کر کے اقتدار چھین بھی لیتا ہے۔کبھی اقتدار دے کر وہ آزماتا ہے اور کبھی چھین کر سزا دیتا ہے۔ خان صاحب سے اقتدار اس وقت واپس لیا گیا، جب ان کی حکومت غیر مقبول ہو رہی تھی۔عوام ان کے دعوئوں کی روشنی میں ان کی کارکردگی کو جانچتے تھے تو انہیں ناکام اور وعدہ خلاف پاتے تھے۔خان صاحب نے آخری حد تک جا کر اپنے اقتدار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا تھا اور وہ چارو ناچار ایوان اقتدار سے نکل ہی گئے یا نکال دیے گئے۔اس کا صدمہ انہیں بے پناہ تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ وہ ایک غیر روایتی انداز کے وزیر اعظم تھے اور بہت سی ایسی خوبیاں ان کے اندر تھیں جو پچھلے وزراء اعظم میں نہیں تھیں۔بس جس چیز کا فقدان تھا‘ وہ صُلح کل کے مزاج کا تھا۔ جس چیز کی کمی تھی وہ شیریں بیانی اور نرمی و حُسن اخلاق کی تھی۔انہوں نے قومی سیاست میں زیر ناک تلخی کا اثر گھول دیا۔سیاسی فضا کو نفرت‘ غصے اور عدم برداشت سے پژمردہ کر دیا۔وہ ایسا نہ کرنے اور محبت‘ عفو و درگزر اور معاف کر دینے اور بھول جانے کی پالیسی اپناتے تو مجھے یقین ہے کہ ان کی مخالفت اتنی شدید نہ ہوئی۔انہیں وہ سب کچھ نہ سننا پڑتا جنہیں سننا خود انہیں بھی مشکل ہی سے اچھا لگتا ہو گا۔ جب آپ اپنے مخالفین کو میر جعفر اور میر صادق یہاں تک غدار اور لنگ وطن کہیں گے تو جواب میں آپ کو محب وطن اور پرہیز گار تو ظاہر ہے نہیں کہا جائے گا۔افسوس اور حیرت کا پہلو تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا بکثرت تذکرہ کرنے والے خان صاحب جن کا دعویٰ رہا کہ وہ وطن عزیز کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور جن کی آئیڈیل ہستی نبی آخر الزماں ﷺ ہیں۔ کیا ریاست مدینہ میں آپﷺ کا بیانیہ یہی تھا، جو خان صاحب کا رہا۔کیا کفّار و مشرکین سے ہمارے نبیؐ کا یہی طرز تخاطب تھا جو خان صاحب کا اپنے کلمہ گو مخالفین کی بابت رہتا ہے۔تو جب تک ریاست مدینہ کی اقدار کو خان صاحب نہیں اپناتے اور رسول اللہؐ کے اخلاق حسنہ کو اختیار نہیں کرتے۔پاکستانی معاشرہ ریاست مدینہ میں ڈھل سکتا ہے؟ نہیں یقینا نہیں۔آخری کتاب میں خداوند تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کا سب سے بڑا وصف یہ بتایا کہ اے نبیؐ!تمہارے گرد یہ لوگ اس لئے جمع ہیں کہ تم نرم خو اور بلند اخلاق والے ہو، اگر تم تُند خو اور برے اخلاق کے حامل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے گرد سے چھٹ جاتے۔خان صاحب آیات قرآنی کے اسی مفہوم پر غور فرمالیں تو انہیں اپنی ناکامی کے حقیقی سبب کا بآسانی علم ہو جائے گا۔دوسروں یہاں تک غیر مسلموں کی بھی دل آزاری شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ایک بدکردار شخص کو بھی حسن اخلاق سے نیکی اور راست بازی کی طرف لانے کا حکم ہے۔خداوند تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو یہی نصیحت کی کہ اس سے حُسن اخلاق سے پیش آنا اور اپنی بہترین طریقے پر کہنا شاید وہ راہ راست پر آ جائے۔یہ ٹھیک ہے کہ خان صاحب جن سابق حکمرانوں کو چور اور لٹیرا کہتے ہیں۔پر ایسے ہی سنگین الزامات ہیں لیکن ابھی یہ الزامات ان پر ثابت نہیں ہوئے‘ بے شک اسی کا سبب ہمارا ناکارہ عدالتی نظام ہی کیوں نہ ہو‘ لیکن جب تک یہ عدالتی نظام درست نہیں ہو جاتا‘ ہمیں اسی پر تکیہ کرنا ہے۔خود خان صاحب بھی اسی عدالتی نظام کے ان فیصلوں کو دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔ جو ان کے حق میں ہوتا ہے تو جب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو جاتا اور عدالت ملزم کو مجرم نہیں بنا دیتی۔ان شخصیات کو ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں چور اور ڈاکو کہنا کس دینی اخلاق کے مطابق ہے۔ اگر ایسی الزام تراشی کے بجائے خان صاحب نصیحت اور اصلاح کا نرم خوئی سے مخالفین کو سبق پڑھاتے تو عجب نہیں کہ خداوند تعالیٰ انہیں ہدایت دے دیتا کہ وہی ہدایت دینے والا ہے۔لیکن مقصد اصلاح نہ ہو‘ محض کردار کشی ہو اور کیچڑ اچھال کر مخالفین کو داغدار کرنا ہو تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرح خدا کو ناراض کرنا ہے اور خدا کی ناراضی کا پہلو اس لئے بھی کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ خدا کے دین کے نام پہ اور خدا کے محبوب نبیؐ کے حوالے سے کر رہے ہیں۔لبرل‘ سیکولر اور بے دین لوگ جو کچھ کرتے ہیں‘ خواہ کتنا ہی غلط کرتے ہوں‘ خدا ان سے اتنا برگشتہ نہیں ہوتا لیکن جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خدا کے دین کو کھلواڑ بناتا ہے۔خدا کا انتقام اس کے لئے شدید ہوتا ہے۔ہمارے ایک جنرل صاحب اسلام‘ اسلام کرتے تھے لیکن ان کا انجام کیا ہوا؟ عبرت ہے دیکھنے والی آنکھوں کے لئے۔مگر عبرت تو وہ پکڑتا ہے جو یہ بھی سوچ سکتا ہو کہ کہیں غلطی پہ میں ہی تو نہیں کہیں بھول مجھ سے ہی تو نہیں ہوئی۔ہاں جو اس طرح سوچتا ہے‘ خدا اس پر رحم کھا کر اس کی غلطی کو اسی پہ منکشف کر دیتا ہے!