لوگ بہت مایوس ہیں۔مایوسی بہت ہے لوگوں میں۔انہیں ہر طرف تاریکی نظر آ رہی ہے۔انہیں اندیشہ ہے کہ یہ اندھیرے انہیں نگل جائیں گے۔روشنی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔امید کی کوئی کرن کہیں سے پھوٹتی نظر نہیں آ رہی۔لیکن میرا ایمان ہے کہ ہم ان اندھیروں سے نکل آئیں گے۔ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ مگر رفتہ رفتہ۔انتظار کھینچنا ہے۔رنج سہنا ہے دکھوں کے جان سے ہم باہر آ جائیں گے مگر آزمائش اور امتحان کے بعد۔مجھے یہ امید کیوں ہے؟ اور یہ آج سے نہیں‘پچھلے پچیس تیس برسوں سے ہے اور میں 1998ء سے لکھتا آ رہا ہوں کہ اجتماعی توبہ کے بعد ہمارے حالات سدھر جائیں گے۔ہمیں انفرادی طور پر اپنی حالت کو سدھارنے اور سنوارنے پر توجہ دینی چاہیے خداوند تعالیٰ ہمارے حال پر مہربان ہے مگر اس کی سنت ہے کہ تبدیلی یکلخت نہیں آتی۔جو کچھ ہوتا ہے بتدریج ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں بھی تبدیلی دبے پائوں آ رہی ہے۔تخریب کے ساتھ تعمیر کا عمل بھی جاری ہے لیکن تخریب کا عمل اتنا منہ زور اور طاقتور ہے کہ تعمیر نگاہوں سے چمپ گئی ہے اور ہمیں نظر نہیں آ رہی ہے۔لیکن غور سے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ لوگوں میں تبدیلی کی خواہش شدید سے شدید تر ہو گئی ہے۔ زبانیں کھل گئی ہیں۔جرات رندانہ پیدا ہو چکی ہے۔مقدس اداروں پہ بھی زبان طعن دراز ہو چکی ہے۔لوگ وہ کچھ کہنے اور سننے لگے ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔مایوسی بہت ہے اور اس مایوسی نے ہی انہیں وہ سب کچھ کہنے اور کرنے کا حوصلہ دے دیا ہے جو ان میں پہلے نہیں تھا۔اس لئے میرا یقین ہے کہ اس مایوسی کے بطن سے بھی امید کی کرن پھوٹے گی۔تخریب کا دائرہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔اسی لئے نالائقوں کے ہاتھوں میں اقتدار دے دیا گیا ہے۔قدرت ان نالائقوں سے جو کام لینا چاہے گی لے لے گی۔مگر انہیں جنہیں اقتدار میں آنے کی بے چینی ہے انہیں بھی بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ہے۔خداوند تعالیٰ نے انہیں سنبھلنے کا ایک موقع دیا ہے‘ایک وہ نہیں سنبھلے تو ان کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔خدا کے لشکروں میں کوئی کمی نہیں۔کسی اور لشکر کو اٹھانا اور اٹھا کر کھڑا کر دینا اس کے لئے بہت آسان ہے۔ لوگ بہت رشک سے بنگلہ کی مثال دیتے ہیں،جو ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔لیکن یہ مثال دیتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں،دو دہائیاں قبل بنگلہ دیش کی حالت بھی کون سی اچھی تھی۔ہم سے بہت پیچھے تھا فوج کی سیاست و اقتدار میں مداخلت تھی۔لاقانونیت اور نراجیت کی کیفیت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا لیکن کسی طرح آہستہ آہستہ اس کی حالت بدلنے لگی اور بدلتی چلی گئی۔اور وہ آج ہمارے لئے تقلید کی قابل رشک مثال ہے۔ سارے ادارے‘سارے طبقے اور گروہ اپنے اپنے دائرے میں لوٹ گئے ہیں اور ملک میں ہم آہنگی اور تعمیر و ترقی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔کوئی عوامی انقلاب نہیں آیا۔بس تخریب کا ایک سیل رواں تھا،جس نے ان کے شب و روز کو بے سکون اور پریشاں حال کیا اور پھر آزمائش کی ان گھڑیوں سے گزر کر عنایات کی بارش برسنے لگی۔قومیں اسی طرح تباہی و بربادی سے نکل کر ترقی و تعمیر سے ہمکنار ہوتی ہیں۔آخری کتاب جب کہتی ہے کہ ہم زمانے کی گردش دیتے رہتے ہیں تاکہ بدتر کی جگہ بہتر کو لاسکیں۔تو یہ گردش قوموں ہی کے درمیان ہوتی ہے۔ جس طرح رحمت باراں سے سوکھی کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں،اسی طرح مالک الملک کی توجہ سے مردہ قومیں بھی جی اٹھتی ہیں اور ہمارے ملک خداداد کو ایک عظیم مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔اس کی بنیاد ڈالنے اور اسے معرض وجود میں لانے کے لئے دو عظیم ہستیاں جناح اور اقبال کو خداوند تعالیٰ نے پیدا کیا۔قوم کی تب کی اخلاقی اور ذہنی حالت کو دیکھیے اور ان دو عظیم ہستیوں کو دیکھیے اور ان کا آپس میں موازنہ کیجیے تو لگتا ہی نہیں کہ اس مردہ قوم میں ایسی زندہ ہستیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔لیکن قدرت کو اپنے مشن و مقصد کو پابہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔اقبالؔ نے اپنی شاعری اور فکر سے قوم میں قوت عمل پیدا کیا اور قائد اعظم نے اس قوتِ عمل کو کام میں لا کر مملکت خداداد کو عالمی نقشے پہ ابھار دیا۔قائد کے بعد یہ ملک تماشا گاہ بن گیا۔سیاست ایک طوائف بن گئی جو تماش بینوں میں گھر گئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ جس حکمراں نے بھی اس مملکت کے ساتھ کھلواڑ کیا‘اسے اپنے ہوس اقتدار کا نشانہ بنایا۔قدرت نے اسے معاف نہیں کیا۔کوئی ان میں سے جلا وطن ہوا‘کسی کو غیر طبعی موت آئی‘کوئی فضائی حادثے کا شکار ہوا اور کوئی قومی نفرت و حقارت کا نشان بن گیا۔اس لئے کہ یہ ملک قائد بنے گا مسلم امہ کا۔اسے دنیا کی امامت کرتی ہے۔بے شک اس عمل میں ستر پچھتر سال لگ گئے اور اسے بھی جانے کتنے برس لگیں لیکن میرا گمان ہے کہ وہ وقت اب دور نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے قومی امراض۔اخلاقی امراض‘ سیاسی اور اقتصادی امراض بے شمار ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ قوم کی تندرستی میں صدیاں درکار ہوں گی۔بنگلہ دیش کی حالت بھی کچھ کم تباہ حال نہ تھی لیکن کیا اسے سدھرنے میں صدیاں لگیں۔بنگالیوں سے تو ہمیں بہت ہی مایوسی تھی۔ہمارے لئے تو وہ بھوکے بنگالی تھے جنہیں زندگی بسر کرنے کا شعور تک نہ تھا۔سوکھے سڑے تھے‘ فوج میں جانے تک کے قابل نہ تھے۔سیلاب اور سائیکلون کے ہاتھوں ہر سال تباہ و برباد ہونا جن کا مقدر تھا اور جو مغربی پاکستان کی ایک ذمہ داری تھے۔معیشت پہ ہماری ایک بوجھ تھے۔وہی بنگالی بنگلہ دیش بننے کے بعد سیاسی و اقتصادی نشیب و فراز سے گزر کر کس طرح ایک سیاسی اور معاشی طور پر خود مختار ملک بن کر کھڑے ہو گئے۔کیا اس میں خداوند تعالیٰ کے ارادے کا کوئی دخل نہ تھا؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا۔وہاں تو کوئی قائد اور اقبال بھی پیدا نہ ہوا۔خدا وند تعالیٰ کی اسکیم میں جب طے کر دیا جاتا ہے تو تبدیلی رفتہ رفتہ ناممکن سے ممکن ہو جاتی ہے۔قوموں کی تاریخ پڑھ لیجیے۔ہر قوم کی تاریخ اپنی اساس میں یکساں ہے۔گراں خواب چینی ہماری آزادی سے ذرا قبل ہی بے عملی کی تصویر بنے رہتے تھے لیکن پھر کیسے کیسے وہ سنبھلے اور کس طرح آج ایک عالمی طاقت بن چکے ہیں۔برطانیہ‘ امریکہ ‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی ان سب کی تاریخ میں زوال و انحطاط اور مایوسی و بے عملی کے واقعات ہی واقعات ملیں گے۔لیکن جب قدرت کی ان پہ توجہ ہوئی تو تبدیلی و انقلاب کے عمل نے ان کی تقدیر بدل دی اور انہوں نے اپنے کارہائے نمایاں سے دنیا کا ہی نقشہ بدل دیا۔تو اس لئے مایوسی کا کوئی پہلو نہیں‘ کوئی چلن نہیں۔تخریب کی شمع جو بھڑک رہی ہے‘ بھڑک کر بجھنے والی ہے‘ اس لئے سخت وقت آ گیا ہے‘ناقابل برداشت مہنگائی‘ مصیبتوں کی جو دکان کھلی ہے تو لگتا ہے کہ اب یہ دکان کبھی بند ہی نہ ہو گیا اور ہمیں اس میں سے صرف مصائب اور پریشانیاں ہی مول لینا ہے۔نہیں ایسا نہیں ہے اور کچھ روز میری جان فقط کچھ ہی روز۔پھر رفتہ رفتہ سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا۔مگر یہ خودکار لفٹ کی طرح ترقی کے آگے بڑھنے کا سفر نہ ہو گا۔اس میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے اپنا کام دیانت داری سے کرنا ہے۔صاحبان اقتدار کو نہ دیکھیے‘ ان کے لئے یہ اقتدار بھی ایک آزمائش ہے اور ان کی اقتدار میں موجودگی ہمارے لئے آزمائش ہے۔آزمائش کی یہ کھٹن گھڑیاں بھی گزر جائیں گی اور اچھے دن بھی آ جائیں گے۔یہ میرا ایمان ہے اور یہ میرا یقین ہے۔