فاروق گیلانی(مرحوم) کی زبانی سنا شعر کچھ تصرف کے ساتھ: میرا ہاتھ دیکھ برہمنا‘ وہ سر بستہ راز کھلے گا کب؟ تیرے منہ سے نکلے خدا کرے‘ اسی ماہ میں اسی سال میں آج صبح تڑکے بہت پرانے دوست سے ملاقات ہو گئی۔اگرچہ وہ برہمن نہیں ہیں لیکن ستارہ شناسی کے فن میں کسی برہمن سے کم بھی نہیں‘ ان سے عرض کیا‘ فاروق گیلانی یاد ہیں؟ کیا انہیں بھلایا جا سکتا ہے؟وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’وہ انہیں یاد کرے جس نے بھلایا ہو کبھی‘ ہم نے ان کو نہ بھلایا نہ کبھی یاد کیا‘‘گیلانی صاحب آپ کو دیکھتے ہی ایک شعر پڑھا کرتے تھے؟ ہاں‘ وہ برہمن والا‘ بالکل وہی‘ اس کے پہلے مصرعے میں تھوڑا تصرف ہے؟ فرمائیے؟ میرا ہاتھ دیکھ برہمنا‘ وہ سر بستہ راز کھلے گا کب‘ بولے‘ اس کے لئے آپ کا ہاتھ دیکھنے کی ضرورت نہیں‘ وہ تو میں آپ کے چہرے سے پڑھ کر بتا سکتا ہوں‘ تو بتائیے۔ وہ تھوڑی دیر غور سے میری طرف دیکھتے رہے‘ معلوم نہیں وہ اندرون سفر میں تھے یا میری ستارہ نوشت پڑھتے رہے‘ کچھ توقف کیا‘ پھر گویا ہوئے کہ ’’اسی ماہ تو راز کھلے گا نہیں‘ البتہ اسی سال یہ سب پر آشکار ہو گا۔آپ کا سوال‘ اس پہیلی کی طرح ہے‘ جسے سمجھتا ہر کوئی ہے لیکن کہتا کوئی نہیں‘ عرض کیا‘ آپ نے کہا اسی سال میں آشکار ہو جائے گا مگر کتنے دنوں میں؟ یہی کوئی پچاس(50) دنوں میں‘ یہ تو بتائیے ہمیں پتہ کیسے چلے گا؟ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بولے‘ آپ کے کوئی دوست یہاں قریب ہی ’’بنی گالہ‘‘ میں رہتے ہیں؟ ہاں ہیں‘ دو ایک‘ ان میں کوئی سیاستدان بھی ہیں؟ دونوں سیاستدان ہیں‘ کیا آپ کا اشارہ ان میں سے عمران خاں کی طرف تو نہیں؟ وہ بھی ہیں، عرض کیا وہ بھی ہیں۔آپ جانتے ہیں اس ذات شریف کے پاس کوئی راز ہو جسے وہ راز رکھنا چاہیں بھی تو باتوں ہی باتوں میں بلکہ جلسہ عام میں لاکھوں کے مجمع عوام میں وہ راز ان کے ہونٹوں سے پھسل جاتا ہے‘ ہاں یہ تو ہے۔چند ماہ پہلے ’’سائفر‘‘ کے معاملے میں تقریر کرتے ہوئے پوری احتیاط اور ضبط کے باوجود امریکہ کا نام لے لیا‘ عرض کیا یہ مسئلہ صرف عمران خاں کے ساتھ ہی نہیں‘ یہیں راولپنڈی میں ہمارے ایک دوست اعجاز الحق بھی ہیں‘ انہیں کوئی نہ کہنے والی بات کا علم ہو جائے تو انہیں باقاعدہ ’’اپھارہ‘‘ ہونے لگتا ہے‘ جب تک دو چار تک کہہ نہ لیں وہ بے چین رہیں گے‘ ایک دن پنڈی گھیپ جاتے ہوئے‘ رستے میں انہیں ایک ایسی بات کہی جو کم از کم تین دن تک ضروری صیغہ راز میں رکھی جانا تھی۔ انہیں اس کی تاکید بھی کر دی گئی تھی‘ گاڑی پشاور روڈ پر تھوڑا آگے گئی تو ایک جاننے والے نے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی کو روکا‘ اعجاز الحق گاڑی چلا رہے تھے اور راقم الحروف ان کے ساتھ اگلی سیٹ پر تھا‘ اعجاز الحق صاحب نے گاڑی روکی اور ہاتھ کے اشارے سے گاڑی روکنے والے سے بات کرنے لگے‘ سلام دعا کے بعد‘ جو پہلی بات اعجاز صاحب نے اس سے کہی‘ وہی تھی جو ان کہی ہونا چاہیے تھی‘ تب ان سے عرض کیا‘ قبلہ اعجاز الحق صاحب‘ آپ کا معاملہ وہی ہے کہ : دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی بس بس‘ ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے‘ آپ تو کچھ لکھتے رہتے ہو؟ ہاں ہفتہ وار ایک کالم ‘ آج کل روزنامہ 92کے لئے لکھا کرتا ہوں‘50دنوں بعد لکھتے لکھتے اچانک آپ کا قلم بھی بہک سکتا ہے‘ بالکل غیر ارادی اسے مٹائیے گا نہیں‘ اس پر غور کیجیے‘ وہی مطلوبہ ’’سربستہ راز‘‘ کا کل جواب ہو گا‘ ضرور ضرور ، آج سے پچاس دن گن گن گزاروں گا۔ دیکھئے قدرت غائب سے کیا عنائت کرتی ہے۔قدرت جو عنائت کرے گی سو کرے گی‘ ایک اور بات کہے دیتا ہوں‘ یہ صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہو گا کہ لکھتے لکھتے قلم پھسل گیا‘ بلکہ وہ قیامت کا منظر ہو گا، قیامت کا ،روز حشر کی طرح‘ وہ کیا؟آپ نے روز حشر کے بارے میں یقیناً پڑھ یا سن رکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو اپنے پاس بلا کر اس کے کسی خفی گناہ کے بارے میں سوال کریں گے کہ تم نے یہ گناہ کیا؟ وہ گناہ جس کے بارے میں اس گناہ گار کے سوا کوئی نہیں جانتا‘ کوئی شاہد نہ گواہ‘ اس لئے وہ ادب سے گزارش کرے گا یا باری تعالیٰ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا‘اچانک اس کے اپنے جسم کے سب اعضاء پائوں‘ ہاتھ‘ آنکھیں ‘ کان‘ ہونٹ ایک ایک حصہ بول اٹھے گا کہ میں چل کے گیا‘ میں نے دیکھا‘ سنا‘ میں نے یہ کیا۔ سب ایک لمحے کی پوری روداد کہہ سنائیں گے اور عرض گزاریں گے کہ یہ دروغ گو‘ اب بھی جھوٹ بولتا ہے ۔اس نے ہم سے یہ سب کروایا‘ وہ جسم اور اعضاء جسے وہ اپنا سمجھتا تھا‘ وہ سب تو اسی کی مخلوق تھے‘ انہیں عارضی طور پر عاریتاً دیا گیا تھا‘ وہ اپنے حقیقی مالک کے وفادار تھے۔اس کی ’’انا‘‘ شرمندہ کھڑی دیکھتی رہ جائے گی۔ گویا پورے منظر کی فلم چلا دی جائیگی جس طرح ابھی لمحہ موجود میں سب وقوع ہو رہا ہے۔ ایسا ہی سب ہونے والا ہے‘ اس کے اپنے دوست‘ یار‘ حواری‘ منصب دار‘ ملازم‘ راز دار‘ نفع حاصل کرنے والے‘ نقصان اٹھانے والے‘ معلومات پر کریڈٹ لینے والے‘ وہ ایک ایک جسے یہ اپنا سمجھ کر ساتھ لئے پھرتا تھا‘ وہ سب اپنی ’’پنڈ‘‘ چھڑانے کے لئے‘ ایک سے بڑھ کر ایک بولتا چلا جائے گا‘ ایک سے بڑھ کر ایک‘ تو راز‘ کون سا راز رہ جائے گا۔ ’’پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘‘ ۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ اسی ہفتے ایک عجب واقعہ ہوا‘ ہمارے ایک جاننے والے ان دنوں امریکہ میں تھے۔ ان کا ’’خاندان‘‘نسل در نسل سیاست میں نمایاں ہے‘ بلکہ قیام پاکستان سے لمحہ موجود تک سیاست میں نمایاں ہی نہیں اعلیٰ ترین مناصب پر قابض و بااختیار چلا آتا تھا اور اب بھی ہے‘ کہنے لگے چوہدری صاحب آج کے بعد کوئی سیاسی پوسٹ یا اپنا لکھا سیاسی مضمون کبھی نہ بھیجیے گا‘ کیوں بھائی ایسا کیاہوا کہ آپ سیاست کی باتیں‘سننے اور پڑھنے سے بھی منہ موڑنے لگے‘ کہنے لگے میں ہی نہیں‘ پورے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سب سیاست سے دور بہت دور رہیں گے‘ سیاست میں حصہ تو کیا‘ اس کا نام تک ہمارے لئے‘ بس گالی جانو! اس کام سے ہمارا جی بھر گیا‘ بلکہ اب تو اس کے نام تک سے ابکائی آنے لگی ہے‘ مگر ایسا ہوا کیا ہے کہ سب سے نفع بخش کام سے آپ اچانک دستبردار ہونے جا رہے ہیں؟ بولے کیا آپ اپنے پرانے دوست عمران خاں کو نہیں دیکھتے‘ اس کی تقریریں نہیں سنتے؟ سنتا ہوں مگر کبھی کبھی‘ پڑھ لیتا ہوں‘ سنتا کم ہی ہوں۔ اسی خاں نے پچھلے چھ مہینوں سے سیاست کو ہمارے سر پر یوں مارا ہے‘ جیسے ہتھوڑے برس رہے ہوں۔ بس یہیں سے جی اوبھ گیا اور دل کٹھا ہو گیا ہے۔ عرض کیا! اے پیارے دوست تمہاری طرح ایک دانشور نے ایک دن کہا‘ میری عجیب عادت ہے‘ میں ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہوں‘ ’’سال بھر میں صرف ایک جھوٹ بولتا ہوں‘ اس سال کا یہی جھوٹ ہے جو میں نے آج بول دیا‘‘ وہ دن اور آج کا دن‘ سوچتا ہوں اس نے جو کہا اس کا مطلب کیا ہے؟اگر کوئی قاری اس عقدے کو حل کرے تو تا عمر اس کا ممنون رہوں گا۔ یہ معجزوں کے دن ہیں‘ اک معجزہ ہوا‘ میرے سر پر مہینوں سے بڑا بوجھ ہے‘ گویا بھاری گھٹڑی اٹھائے پھرتا ہوں جس کے بھاری پن سے گردن ٹوٹی جاتی ہے۔گزشتہ بدھ کے دن‘ نظر نہ آنے والی گھٹڑی سے کوئی بڑ بڑا رہا تھا ۔غور کیا تو کہہ رہا تھا :یہ بوجھ چند ہفتے اور برداشت کرو‘ میں از خود تمہارے سر سے اتر جائوں گا یہ بوجھ دکھائی نہ دینے والا کوئی انسان تو تھا نہیں ورنہ نظر بھی آتا‘ کوئی ’’جن‘‘ رہا ہو گا‘ انہیں کے بارے سن رکھا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے‘ مگر کبھی کبھی انسانی آواز میں کسی سے مخاطب ہو سکتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ ’’جن‘‘ چھوڑ جائے تو اپنے جانے کی کوئی نشانی دے کر جاتے ہیں‘ وہ نشانی کوئی معمولی کنگرا کرانے سے چھٹ الٹ دینے‘ دیوار ڈھا دینے سے کسی معصوم کی جان لینے تک کچھ بھی ہو سکتی ہے۔سر سے بوجھ اترنے کا سن کر خوشی تو ہے لیکن جاتے ہوئے کیا نشانی چھوڑ جائیگا؟اس سے دل لرزتا ہے‘ اس بارے میں ہمارا برہمن بھی کچھ کہنے‘ بتانے سے قاصر ہے۔