پاکستان کی ریاست اور سیاست ابتدا سے ہی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے یہ ریاست کی فیصلہ ساز قوتوں کی نااہلی ہے ۔آج تمام ادارے باہم دست و گریباں ہیں اور ریاست کا مستقبل مخدوش۔ آئینی طور پر پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے مگر اس کے سیاسی تقاضے کیا ہیں؟۔ایک وفاقی ریاست سیاست دانوں سے جس سیاسی دانائی کی متقاضی ہوتی ہے پاکستان میں اس کا مظاہرہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ وفاقی ریاست کی کامیابی کے لئے سیاسی وسعت نظر اور کشادہ دلی ،آئینی حدود کی پاسداری اور وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین پر اعتماد تعلقات کی موجودگی ضروری ہوتی ہے ۔وفاقی ریاست کی کامیابی واضح قانونی تفہیم اور دستوری طور پر طے شدہ دائرہ ء عمل میں رہتے ہوئے اختیارات کی تقسیم کے مطابق سیاسی عمل کی آزادی پر منحصر ہے۔وفاق میں شامل ریاستی اکائیاں دستور میں دیے گئے اختیارات کی عملی تعبیر کی مطلوب ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کا رویہ ابتدا سے ہی سیاسی اقدار سے انحراف پر مبنی رہا ہے جس کا نتیجہ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت سامنے آچکا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات عموماــــ ناخوشگوار،غیر اطمنان بخش اور بسا اوقات سرخ لکیر کے نزدیک ہی رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدان جمہوری سیاسی نظام کے لئے باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر خود کو وفاقی سیاسی نظام کے مطابق ہم آہنگ نہیں کرپاتے بلکہ ان کے اختیا کردہ بیشتر سیاسی رویے وفاق کے لئے خطرہ ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ایک وفاقی ریاست کی کامیابی کے لئے بنیادی جوہر وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان اعتماد کی موجودگی کو قرار دیا جاتا ہے۔ باہمی اعتماد کی فضا میں ہی وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین سیاسی ،مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی تقسیم کو روبہ عمل لایا جاتا ہے۔اگر باہمی اعتماد کا فقدان ہو تو وفاقی ریاست کی کامیابی کی ضمانت نہیں رہتی ۔موجودہ پاکستان کا وفاق پنجاب ،سندھ ، خیبر پختون خوا،بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر مشتمل ہے اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی خصوصی حیثیت میں پاکستان کے ساتھ شامل ہیں۔ 1973 کے وفاقی پارلیمانی دستور میں دی گئی وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین ایک بہتر اشتراک عمل کی ضمانتوں کے باوجود پاکستان میں وفاقیت اپنی سیاسی اور ا نتظامی جڑیں مستحکم نہیں کر سکی ہے۔ بیشتر قومی معاملات اور مسائل متنازع ہونے کے باعث یا تو لا ینحل ہوتے جارہے ہیں یا پھر غیر ضروری مباحث، عدم اعتماد اور انتظامی نااہلی کے باعث تعطل کا شکار رہتے ہیں۔قومی مردم شماری ہو ، صوبوں کی از سر نو انتظامی تقسیم کی ضرورت ہو ، آبی وسائل کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی صوبہ جاتی تقسیم کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی اور انتظامی اختیارات کا درجہ بدرجہ نچلی سطح تک منتقلی ہو ہمیشہ وجہ نزع رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ وفاق کی مشکلات میں اضافہ کی صورت سامنے آتا رہا ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان کا موجودہ د فاق انتظامی اور سیاسی اعتبار سے غیر موزوں ہے ۔پنجاب کی آبادی دیگر تمام وفاقی یونٹس کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے ۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 207,684,626 ملین تھی جس میں پنجاب کا حصہ 109,989,655 ملین یعنی کل آبادی کا 52.06 فیصدتھا جس کے باعث قومی سیاست میں اسے فیصلہ کن برتری حاصل ہے ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی جسے وفاقی حکومت سازی میں کلیدی اہمیت حاصل ہے اس میں قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے پنجاب کی نشستوں کی تعداد 183 ہے جب کہ وفاق میں حکومت سازی کے لئے کے لئے محض 172 کی سادہ اکثریت ہی کافی ہے جو پنجاب کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ممکن ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ملک کی عسکری اور انتظامی مشینری میں بھی اس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ کمزور سیاسی اداروں کی موجودگی میں ریاست کے انتظامی اور سیاسی امور میں غیر سیاسی اداروں کی مسلسل مداخلت سے پاکستان کے وفاق کی سیاسی حیثیت پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں اور ایسے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر جو پاکستان کے وفاق کو دل سے تسلیم نہیں کرتے ہیں انہیں اس بات کا موقع مل جاتا ہے کہ وہ وفاق کے خلاف دیگر وفاقی اکائیوں میں عدم اطمنان کو ہوا دیں سکیں۔ ایک غیر متوازن وفاقی اکائیوں کی موجودگی میں اعتبار اور اعتماد کی جتنی شدید ضرورت پاکستان کے وفاق کو ہمیشہ سے رہی ہے بد قسمتی سے سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث اس سے اتنی ہی غفلت برتی گئی ۔جس کا اولین نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت 1971میں سامنے آچکا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ موجودہ وفاق کے سیاسی اور غیر سیاسی اداروں نے اب بھی اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا ہے ۔ ایسے اقدامات جن سے وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین اعتماد کی فضا قائم ہوتی اس سے اجتناب اب بھی موجود ہے ۔ موجودہ وفاق کی فیصلہ ساز قوتیں کیا اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس طرز عمل سے مشرقی پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور ناانصافی کے بوجھ تلے سسکتی مشرقی پاکستان کی اکثریت نے اپنے سیاسی حقوق کے لئے پہلے دبی دبی زبان سے آواز یں بلند کیں اور جب انہیں معتدبہ اہمیت کے لائق نہیں سمجھا گیا تو پھر یہ آوازیں 1970 کے الیکشن میں علیحدگی کے نعروں میں تبدیل ہوکر پاکستان کے وفاق کی شکستگی اور عسکری ہزیمت کا سبب بن گئیں ۔ آج پھر پاکستان کا وفاق اپنے سیاسی مستقبل اور بقا کے لئے سیاسی، عسکری ،عدالتی اور انتظامی اداروں کے سامنے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ ریاست کے حقیقی مسائل اور درپیش مشکلات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پارلیمنٹ اور عدلیہ جس طرح غیر ضروری آئینی موشگافیوں میں الجھی ہوئی ہیں اور جو تماشہ ہر روز صبح و شام میڈیا اور سوشل میڈیا میں برپاہے ا س سے نہ صرف وفاق کی سیاسی حیثیت کمزور ہو رہی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ریاستی وقار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار صورت حال کی حساسیت سے غافل کیوں ہیں ؟ ہر ادارہ اپنی پسند کی آئینی تشریح پر کیوں مصر ہے ؟ اور اس بات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہے کہ آئین کے درست تقاضے کیا ہیں۔؟ وفاق کی سلامتی آئین کی پاسداری میں ہے، وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین اعتماد کے تسلسل میں ہے، کسی بھی اکائی کی اکثریت کی بنیاد پر سیاسی جارحیت ( غالب رہنے کی غیر جمہوری اور غیر سیاسی کوشش )سے دانستہ اجتناب میں ہے۔ ایک عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کے نفاذ کے بغیر کسی بھی وفاق کی کامیابی ممکن نہیں ۔وفاق کی کامیابی اختیارات کی تقسیم میں ہے نہ کہ اس کے ارتکاز میں چاہے وہ کسی ادارے میں ہو یا کسی منصب میں۔ یہ بات فیصلہ ساز( سیاسی اور غیر سیاسی ) جانتے تو ہیں مگر اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔خواہ اس کے لئے وفاق کو کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔