صدر جنرل ایوب خاں پہ ایک بڑا الزام عاید کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے باسٹھ کے آئین کی خلاف ورزی کی اور جب ان کا اقتدار پر رہنا ممکن نہ رہا تو اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے اپنے چہیتے جرنیل آغا محمد یحییٰ خان کو دے دیا جس کی بے بصیرتی اور بے حمیتی سے ملک دولخت ہو گیا۔ تب قومی اسمبلی کے سپیکر ایک بنگالی سیاست داں عبدالجبار خان تھے اور ایوب خان بنگالیوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کے مطابق شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس بالکل درست تھا۔ لیکن یہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کی نالائقی تھی جنہوں نے ایوب خان پر عوامی دبائو ڈال کر شیخ مجیب کو رہا کرایا۔ بھٹو اور بھاشانی نے مل کر جب گول میز کانفرنس کو ناکام بنایا تو صدر ایوب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اقتدار چھوڑ دیں۔ ضیاء شاہد کی کتاب میں درج ہے کہ ایوب خاں نے ان سے کہا کہ ملک جس نازک دوراہے پر کھڑا تھا اس میں میرے لیے ممکن نہ تھا کہ اقتدار ایک بنگالی کے حوالے کر دیتا۔ صدر ایوب بنگالیوں کو سازشی ذہنیت کی قوم سمجھتے تھے اور یہ سچ ہے کہ انہوں نے بنگال یا مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے تھے بلکہ ڈاکٹر صفدر محمود کی تحقیق کے مطابق ایک پنج سالہ منصوبے میں انہوں نے مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ رقم مختص کی تھی۔(بحوالہ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘)لیکن بنگالی لیڈر اور شورش پسند بنگالی عوام اس سے مطمئن نہ ہوئے۔ چنانچہ ایک مرتبہ صدر ایوب نے جھنجھلا کر کہا بھی کہ ’’بنگالی مجھ سے اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ بنگالی اقتدار میں شرکت چاہتے تھے وہ نئے دارالحکومت کی تعمیر سے خوش نہ تھے۔ انہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی تھی۔ صدر ایوب اور بنگالیوں کے درمیانی بدگمانیوں اور بد اعتمادی کی جو فصیل کھڑی ہو گئی تھی اس میں صدر ایوب کیوں کر ایک بنگالی سپیکر کو اقتدار سونپ دیتے۔ شیخ مجیب بھی رہا ہو چکے تھے۔ انہیں غالباً ملک سے زیادہ خود اپنے تحفظ اور سلامتی کا اندیشہ تھا۔ وہ سپیکر عبدالجبار خاں سے زیادہ آرمی چیف جنرل یحییٰ خاں کو اقتدار دینے میں خود کو محفوظ پاتے تھے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ عوام میں ’’ایوب کتا‘‘ ہائے ہائے کے نعرے بھی لگ رہے تھے۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ انٹیلی جنس کے ادارے کے سربراہ جنرل یحییٰ کے بھائی آغا محمد علی تھے۔ جنہوں نے صدر ایوب کو عوام کی ان سے نفرت اور بیزاری کی مبالغہ آمیز رپورٹیں بھی مسلسل دیں تاکہ ان کے اعصاب جواب دے جائیں۔ آغا محمد علی نے بقول ضیاء شاہد لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کی تختی ڈال کر اس کی تصویر کھینچوائی اور صدر ایوب کو بھجوا دی۔ تصویر دیکھ کر ارسٹو کرٹیک مزاج رکھنے والے ایوب خاں کو ناقابل بیان صدمہ پہنچا اور انہوں نے عہدہ صدارت پر لعنت بھیج دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یہی واقعہ قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں مختلف طریقے سے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق صدر ایوب اسلام آباد میں اپنے گھر سے نکلے تو راستے میں انہوں نے طلبہ کا جلوس دیکھا جو نعرے لگا رہے تھے۔ ڈرائیور سے انہوں نے پوچھا یہ لڑکے کیا نعرے لگا رہے ہیں؟‘‘ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی کہ اصل حقیقت بیان کر سکے لیکن اصرار پر جب اس نے بتایا تو صدر ایوب کا چہرہ توہین و تذلیل کے احساس سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے گاڑی موڑنے کو کہا اور واپس جا کر انہوں نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ شہاب مرحوم کے افسوں گر قلم نے اس قصے کو ایک کلائمکس تک پہنچایا یہ لکھ کر کہ اس واقعے کو بہت برس گزر گئے۔ ایک دن صدر ایوب جو سابق ہو چکے تھے اور گوشہ نشینی کے دن گزار رہے تھے۔ دارالحکومت کے سپر اسٹور میں گئے جہاں چند طالب علموں نے انہیں پہچان کر گھیر لیا اور کہا ’’انکل! ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ آپ دوبارہ اقتدار کیوں نہیں سنبھال لیتے۔ ’’سابق صدر نے اس معصومانہ فرمائش پر زہر خند لہجے میںجواب دیا’’بیٹا!ایوب کتا اب بوڑھا ہو گیا ہے‘‘ اور یہ کہہ کر سٹور سے نکل گئے۔ کیا شبہ ہے کہ دور ایوبی میں ملکی معیشت مستحکم ہوئی۔ صنعتیں اور کارخانے لگے‘ ڈیم بنے‘ زراعت اور تعلیم کے شعبوں کی حالت بہتر ہوئی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں جیسی کمی آئی ویسا سستا زمانہ پھر لوٹ کر نہ آ سکا۔ لیکن ترقی کے یہ سارے کارنامے سطح آب پر بننے والے بلبلے ثابت ہوئے جنہیں بادِ سیاست کے ایک ہی تھپیڑے نے فنا کر دیا ان کے جانشین آغا محمد یحییٰ خان اقتدار ملتے ہی شتر بے مہار ہو گئے۔ شراب و شباب نے انہیں جیسا بدمست کیا اس کی واقعاتی تفصیل بھی ضیاء شاہد کی کتاب میں ملتی ہے۔ یحییٰ خاں جب تک اقتدار میں رہا اس کی خرمستیوں کی بابت کسی کو کچھ لکھنے کی جرات نہ ہوئی لیکن اقتدار سے ہٹتے ہی پس پردہ کہانیاں منظر عام پر آنے لگیں۔ ان ہی میں ایک کہانی اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی کی تھی جس کا تذکرہ یحییٰ خاں کے حوالے سے اخبارو رسائل کی بہ کثرت زینت بنا۔ ضیاء شاہد نے جنرل رانی سے اپنی ملاقات کی روداد بھی قلم بند کی ہے۔ اقلیم اختر رانی خود اپنے بیان کے مطابق ایک باعزت پردہ دار خاتون تھی جو اپنے شوہر کے ساتھ جب بھی نکلتی تھی تو برقع میں ملبوس ہوتی تھی۔ شوہر اس کا نہایت جابر اور سنگ دل انسان تھا جو بھرے بازار میں اس کی سرزنش سے باز نہ آتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن اس نے بیوی کو طلاق دے دی۔ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری جب اقلیم اختر پر آ پڑی تو اس کے پاس بقول اس کے کوئی اور چارہ نہ تھا کہ ’’سہولت کاری‘‘ کا اس نے کام سنبھال لیا۔ جنرل یحییٰ سے اس کے مراسم پہلے سے تھے صدر بننے کے بعد جنرل یحییٰ کے لیے اس کی خدمت میں اضافہ ہو گیا۔ اس نے مادام نورجہاں کو صدر یحییٰ سے ملوایا۔ ان دنوں مادام انکم ٹیکس کے کسی کیس میں پھنسی ہوئی اور پریشان تھیں صدر یحییٰ سے ملاقات نے ان پر عنایات کے اتنے دروازے کھول دیے کہ ساری پریشانی جاتی رہی۔ جنرل رانی نے ضیاء شاہد سے انکشاف کیا کہ وہ صدر یحییٰ کے علاوہ کئی قومی لیڈروں کے لیے بھی ’’سہولت کاری‘‘ کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ ان ہی میں زیڈ اے بی بھی شامل تھے۔ جنرل یحییٰ کا یہ دور پس پردہ واقعات کے اعتبار سے اس درجہ گھنائونا اور مکروہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان رونما نہ ہوتا تو تعجب ہوتا۔ خود جنرل رانی کی بیٹی بعد میں جرنلسٹ بنیں اور مشرقی پنجاب کے ایک سکھ سیاست داں سے بیاہ رچایا۔ کتاب میں بھٹو عہد کے مظالم کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ خصوصاً حنیف رامے پر مضمون میں بتایا گیا کہ بھٹو صاحب کو برسر اقتدار لانے میں جن شخصیات نے اپنا تن من دھن قربان کر دیا۔ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر ان ہی شخصیات کا جینا دوبھر کر دیا اور اپنی انانیت اور طاقت کے نشے میں انہوں نے حنیف رامے جیسے صاحب علم اور شریف النفس دانشور کو عقوبت خانے میں دھکیل دیا۔ کچھ ایسی ہی تفصیلات جے اے رحیم اور معراج محمد خاں پر مضامین میں ملتی ہیں۔ جے اے رحیم وہ آدمی تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کا مینی فیسٹو لکھا تھا اور معراج محمد خان کو بھٹو صاحب نے اعلانیہ اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ جے اے رحیم کی ایف ایس ایف کے کارندوں نے جس بری طرح دھلائی کی اس کا قصہ ہرکس و ناکس کو معلوم ہے لیکن یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں جو ضیاء شاہد نے بتائی ہے کہ جے اے رحیم جب تک زندہ رہے خفیہ ادارے سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتے رہے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ اسی طرح معراج محمد خاں پر پولیس نے ایسا ستم ڈھایا کہ ان کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی۔ جب ضیاء شاہد نے معراج سے بھٹو صاحب کی اقتدار میں آ کر قلب ماہیت ہو جانے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ اصل میں بھٹو صاحب کا بچپن اچھا نہیں گزرا تھا۔ ان کی شخصیت کی نشوو نما میں ان کے بچپن کا عمل دخل بہت زیادہ رہا۔ تاہم معراج صاحب نے بچپن کی تفصیل پر روشنی ڈالنے سے عمداً یا مصلحتاً گریز کیا۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھٹو کے زوال میں اس کے مزاج میں شامل فسطائیت اور آمرانہ انداز فکر نے مرکزی کردار ادا کیا اس کے برعکس جنرل ضیاء نے اگر گیارہ سال نہایت سہولت سے اقتدار میں رہ کر گزار لیے تو اس کی بڑی وجہ ان کی ذاتی صفات تھیں جس میں انکسار‘ عاجزی‘ خوش اخلاقی اور تحمل و برداشت کی خوبیاں تھیں۔ ایک طرف بھٹو تھے جو دوسروں کی توہین و تذلیل کر کے اطمینان محسوس کرتے تھے تو دوسری طرف جنرل ضیاء تھے جو عاجزی اور انکسار کا نمونہ بن کر دوسروں کا دل جیت لیتے تھے۔ بقول ضیاء شاہد اگر ان کا طیارہ تباہ نہ ہوتا تو اپنے ان اوصاف کی بدولت وہ اور زیادہ مدت تک حکومت میں رہتے۔ کتاب میں مولانا مودودی کی علم دوستی‘ اصغر خاں کی سادگی قاضی حسین احمد کا اخلاص و محبت اور دوسرے رہنمائوں کی بابت ایسی معلومات ملتی ہیں جن سے انہیں اور خود قومی سیاست کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاست کے ہر طالب علم کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔