مجھے یاد ہے کہ 2018ء میں جب بھارت کے جنوبی صوبہ کرناٹک، جو اس وقت حجاب کی وجہ سے خبروں میں ہے، میں اسمبلی انتخابات کا بغل بج چکا تھا، اسی ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک مقتدر لیڈر، آنجہانی اننت کمار، جوپارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بھی تھے، پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں ان انتخابات کیلئے اپنی پارٹی کی اسٹریٹجی وغیرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔ یہ وسیع ہال دوایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے بیچ میںواقع ہے اور یہاں سال میں ایک بار بجٹ سیشن کے آغاز میں صدر مملکت ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ بقیہ دنوںیہ آپسی گفتگو ، جوڑ توڑ، سیاسی چالوں کی بساط بچھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ15سال تک مسلسل پارلیمنٹ کور کرنے والے صحافیوں اور مقتدر ایڈیٹروں کیلئے بھی اسکے دروازے کھلے ہوتے تھے اسلئے یہاں عام طور پر وزیروں اور لیڈروں کو کیمروں کی چکا چوند سے دور آف دی ریکارڈ سیاسی موضوعات اور ملکی حالات پر بحث و مبا حثہ اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ بی جے پی کیا ایجنڈہ لیکر میدان میں اتر رہی ہے؟، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ’’ پولرائزشن ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔‘‘ ان دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان ہندو شدت پسندوں کی زد میں تھے۔ کانگریس کے ایک لیڈر کے رحمان خان ٹیپو سلطان کے نام پر ایک یونیورسٹی بنانا چاہ رہے تھے۔ اسوقت کے کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔ اننت کما ر کا کہنا تھا کہ یہ ایشوہماری انتخابی مہم کیلئے غذا ہے اور اس کا بھر پور استعمال کیا جائیگا۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد 40سے بڑھا کر 104کردی۔ 2004ء میں جب کانگریس کی زیر قیادت اتحاد نے پارلیمانی انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی شائننگ انڈیا کے نعرے پر لڑا تھا ۔ مگر اس شکست نے ان کو احساس دلایا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوزکے ذریعے ہی لبھایا جاسکتا ہے۔ تب سے بی جے پی نے اقتدارکے گلیاروں تک پہنچنے اور کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کیلئے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ۔ وہ ہے گائے، مسلمان اور پاکستان۔ 2014 سے ابھی تک گائے کی حفاظت کے نام پر 80کے قریب ہجومی تشدد کے واقعات میں 50افراد ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں دودھ نہ دینے والی گائوں کو کسان اپنے گھروں سے بھگا کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں، جو راتوں کو فصلوں کو نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہیں۔کیونکہ گائے کی طبعی عمر 20 سال ہوتی ہے اسمیں وہ صرف سات سال تک ہی دودھ دیتی ہے۔ اتر پردیش کے مغل سرائے علاقہ میں رہائش پذیر میرے ایک ساتھی کے مطابق راتوں کو اب گائیوں کے خوف سے دیہی علاقوں میں باری باری پہرہ دینا پڑتا ہے۔ اسلئے اب گائے کا ایشو ٹھنڈا ہوچکا ہے۔ پاکستان کے ایشو کو شاید یا تو آئندہ کیلئے رکھا گیا ہے یا اس میں سفارتی قباحتیں بیچ میں آنے سے اسکو اسطرح بھنایا نہیں جا رہا ہے، جس طرح پلوامہ میں فوج پر حملہ کے بعد 2019 میں اسکا استعمال کیا گیاتھا۔ اس وقت ہندو شدت پسند اور انکی سیاسی تنظیم بی جے پی ، مسلمان کارڈ کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کا نام لیا، ان کو مطعون کیا، الیکشن کو ہندو بنام مسلمان کرکے پیادوں کو شہہ دی۔ لکھنوشہر کے ایک مقتدر صحافی حسام صدیقی کے مطابق ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے تاکہ عام ہندووں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے۔ایک نئے تجربہ کے بطور اسوقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی شروعات کرناٹک کے اڈپی قصبہ سے ہوئی۔ جہاں گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج فار گرلز میں آدھا درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انہوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے 5 فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے تمام سکول کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔ اس میں بتایا گیا کہ امن، بھائی چارہ، نظم ونسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے والے کپڑے سکول کالجوں میں نہیں پہنے جاسکتے۔اب بتائیے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، یہی افراد لڑکیوں کے مغربی لباس پہننے اور ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں تو اسکو بھی اتار پھینک دو۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو اتنی دور کی کوڑی لیکر آگئے کہ ا نہوں نے کہا کہ حجاب کے ذریعہ کچھ لوگ ملک میں اسلامک اسٹیٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ادھربی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف احتجاجاً طلباء کو بھگوا انگوچھے تقسیم کر رہی ہیں۔انہیں بھگوا پگڑی پہنا کر کالج بھیجا گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلم خواتین کو با اختیار بنانے یا انکے لئے تعلیم و نوکریوں کی فراہمی آسان بنانے کیلئے پردے کی مخالفت کا مقصد ہوتا، تو شاید ہضم کیا جاسکتا تھا، مگر یہ لو جہاد سے شروع ہوکر ، شہریت قانون، تبدیلی مذہب پر پابندی قانون، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے ان گنت اقدامات کا تسلسل ہے،جس سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کیلئے یہاں جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی حثیت سے رہنا ہوگا۔2017 میں میری ایک ساتھی خاتون رپورٹر شویتا ڈیسائی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کیا تھا ۔ واپسی پر اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس علاقہ میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردئیے جانے کی سینکڑوں وارداتیں پولیس سٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھاکہ اکثر ان لڑکیوں کا ’’شدھی کرن ‘‘کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گاوں کی 17سالہ آسیمہ نے بتایاکہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کیلئے دبائوڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ گئی۔ خاتون رپورٹر نے بتا یا کہ صر ف اس ایک گائوں میں نو ایسے خاندان ہیں جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی کی شادیاں کرادی گئیں۔ (جاری ہے)