پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں بس یونہی خیال آیا کہ زندگی کی ہما ہمی اور رونق بھی اسی باعث ہے کہ دنیا میں ایک مسابقت ہے۔عالم اسباب میں کچھ کرنا تو پڑتا ہے پھر نتیجہ کسی کے ہاتھ میں کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا۔اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ایک خیال ضرور جڑا ہوا ہے بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا۔یہ توکشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے ۔انسان کے ساتھ خالق نے اسباب بھی تو جوڑ رکھے ہیں پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے۔جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا اور پھر بدقسمتی سے یہ بھی ہوتا ہے کہ میرے بازو نہیں رہے مرے لوآخری سہارا بھی گیا کبھی ایک افسانہ پڑھا تھا ہاتھ بیچنے والے اور ایک کا نام تھا رہن میں رکھے ہاتھ‘ یہ زندگی کی مشکلیں ہیں چلیے اب اس خیال سے موجود کی طرف آتے ہیں۔ پہلی بات تو ہم بلاول کی کریں ہمیں آج بلاول بہت اچھا لگا جالب صاحب بھی یاد آئے کہ جب وہ سناتے تھے ہر بلاول ہے ملک کا مقروض پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے یہ ایک علامتی پیغام تھا مگر چھپی ہوئی بات یہ کہ وہ پیپلز پارٹی سے کچھ امیدیں وابستہ رکھتے تھے کہ یہ عوامی پارٹی ہے اور ہر کوئی قیادت تک رسائی رکھتا ہے۔محاسبے کا ایک کلچر اس جماعت میں تھا خیر بات ہو رہی تھی بلاول کی کہ اس کے بیان پر ہم نہال ہوئے کہ ایک ہونہار نے اپنے چکنے چکنے پات دکھا دئیے۔اگرچہ ہم اس کے لگاتار بیرونی دوروں کو تعجب سے دیکھ رہے تھے مگر ان کی جرات کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے مودی کو قصاب کہا۔ گجرات کے اس قصاب اور قاتل کو پوری دنیا اس حوالے سے جانتی ہے۔ بلاول نے مودی کو اس کا اصل چہرہ دکھا دیا تو انتہا پسند ہندوئوں کو آگ لگ گئی۔بھارت میں بلاول کے بیان کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔ اب آتے ہیں بڑی خبر کی طرف کہ عمران خاں نے جمعہ کو پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا ہے لگتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے طعنے کام کر گئے کہ تاریخ نہ دیں اسمبلیاں توڑ دیں لیکن ابھی ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب پر جام آنے تک‘ صورت حال بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ عمران خاں ہر قسم کا رسک لینے کے لئے تیار ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ جتنا وقت وہ ن لیگ کو دیں گے اتنا ہی وہ منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔دوسری طرف وزیر اعظم کی طرف سے پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا مگر اب ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ہو سکتا ہے اس میں سے کوئی اور چیز ہی برآمد ہو جائے کہ چوہدری برادران ایسے سیاستدان ہیں کہ مکالمے کے قائل نہیں اور کوششیں کروانا جانتے ہیں۔پرانی مثالوں میں منظور وٹو کی مثال آپ کو یاد ہو گی۔پرویز الٰہی ن لیگ کے بھی فیورٹ بن سکتے ہیں۔پہلے مرتبہ تو ٹوکرا مٹھائی کا بانٹ گیا تھا مگر کسی نے پرویز الٰہی کو عمران خان کے پاس بھیج دیا۔وہی جوشاعر نے کہا تھا کہ میں آیا نہیں لایا گیا ہوں اب بھی بدن بولی سے لگ رہا ہے کہ میں کچھ ارشاد فرمایا گیا ہوں۔ پی ڈی ایم کا ردعمل بھی خوب ہے کہ عمران خان بات جمعہ تک کیوں لٹکا رہے ہیں جلد اسمبلیاں توڑیں یعنی ابھی کہ ابھی۔ تاکہ وہ یوم نجات منا سکیں۔ لگتا ہے پی ڈی ایم میں سب خیر خواہ نہیں ہیں۔کچھ کا خیال ہے کہ زرداری صاحب نے ن لیگ سے ایسا بدلہ لیا ہے کہ وہ اب سنبھل نہیں سکے گی لیکن ایک بات کامن سینس کی ہے کہ اس زحمت میں رحمت بھی ہے کہ ن لیگ اپنی ہی پریشانی میں متحرک ہو گئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی فی الحال سندھ تک محدود ہے ۔پنجاب کا معاملہ ابھی مخدوش ہے۔اگر پنجاب کی اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو پھر سمجھ جائیے معاملہ ہی کچھ اور ہے اور اب تک کی سیاسی پیش رفت ہی مشکوک اور سوالیہ بن جائے گی۔یہ بھی اوپر کی سیاست کا کمال ہے کہ سب کو رکھو۔ گھوڑے بھگائے رکھو۔ شیخ رشید صاحب اپنی سی فرما رہے ہیں کہ 24گھنٹے اہم ہیں ۔اب تو انہیں سنجیدہ بھی نہیں لیا جاتا۔لیکن کمال یہ ہے کہ شیخ صاحب اسی طرح پراعتماد ہیں اور پیش گوئیوں سے باز نہیں آتے۔ درپردہ وہ پی ٹی آئی کو بتا رہے تھے کہ وہ تو خان صاحب کا حوصلہ بڑھا رہے تھے وگرنہ وہ تو گیٹ نمبر 4کے مالک ہیں غالب یاد آ گئے۔ گدا سمجھ کے وہ چپ تھے جو میری شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے اس پاسبانی کا بھی جواب نہیں نہ ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘‘ اگر اسمبلیاں سچ مچ تحلیل ہو گئیں تو دوسرا مکان وہ ہے جو خورشید رضوی کی مشہور غزل کے شعر کی صورت بھی ہو سکتی ہے: وہ نگینہ جو خاتم زندگی سے پھسل گیا تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے ایک اور شعر اس غزل کا بھی اس اتحاد پر پورا اترتا ہے: وہ کھلی کھلی سی عداوتیں مجھے راس تھیں یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے اٹارنی جنرل کا بیان بھی کیا دلچسپ ہے کہ اسمبلیاں توڑنے سے ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ انتخاب وقت پر ہونا ہی سب کے مفاد میں ہے واقعتاً میں سیاست کرنے والوں کو ملکی مفاد مقدم رکھنا چاہیے عوام میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو شرارتی اور انتشار پیدا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ خاموش ووٹ کسی کی حرکتیں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔آپ انتخاب اپنی خوبیوں پر لڑیں نہ کہ دوسروں کی خامیوں پر آخری بات محترم سراج الحق کا ایک بیان کہ ان کا بھی حق ہے کہ ہم ان کی بات کالم کا حصہ بنائیں وہ کہتے پی ڈی ایم پی پی اور پی ٹی آئی کے ٹرائیکہ نے ملک تباہ کیا یعنی اصل میں تینوں ایک ہیں غالب کے شعر سے استفادہ کیا ہے: قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں