نواز شریف صاحب کے زیر بحث بیانیہ کے دوران سوشل میڈیا پر سرچ کرتے کرتے مجھے اجمل قصاب سے انڈین ایجنسیوں کی انوسٹی گیشن کی سات قسطوں پر محیط ایک ویڈیو ملی جسے میں نے بہت غور سے اور بار بار سنا،یہ انوسٹی گیشن جیل کے اسپتال میں کی گئی تھی اور اسے ایک بھارتی میڈیا گروپ نے وائرل کیا، اسے دیکھنے اور سننے کے بعد پاکستان کی ممبئی حملوں میں مکمل لا تعلقی از خود ثابت ہو جاتی ہے، یہ مکمل طور پر اصل ویڈیو ہے، اس کا مختصرخلاصہ اپنے قارئین کے لئے۔ اجمل قصاب نے کئی ایجنسیوں کے تابڑ توڑ سوالات کے کیا جوابات دیے۔ہمارے شہر دیپالپور میں ایک دفتر بنا ہوا تھا جہاں ایک آدمی بیٹھتا تھا جسے لوگ چاچا چاچا کہتے تھے وہ چاچا جس کی عمر چالیس پنتالیس سال تھی، ایک دن میرے باپ کے پاس آیا اور کوئی بات چیت کرکے چلا گیا، میرے باپ نے مجھے کہا ، بیٹا ! تمہارے لئے ایک نوکری کا بندوبست ہو گیا ہے، اب ہماری غربت اور بھوک ختم ہوجائے گی، پھر میں چاچا کے ساتھ چلا گیا ، ایک مہینے کی ٹریننگ دی گئی اور کشتی کے ذریعے ممبئی پہنچا دیا ہمارے سارے سہولت کار ممبئی سے ہی تھے، بھارتی ایجنسیوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ پاکستان کی کسی ایجنسی کو ملوث کر سکیں، لیکن اجمل قصاب کا کسی پاکستانی ایجنسی سے تعلق ہوتا تو بتاتا، سات قسطوں پر مشتمل اس ویڈیو انٹرویو میں صرف یہ بات سامنے آئی کہ اسے ایک کالعدم جماعت نے ہائر کیا جو پاکستان کے شہریوں اور پاکستان کے محافظوں کو بھی ٹارگٹ بناتی چلی آ رہی ہے اور وہ سینکڑوں بے گناہوں کی شہادتوں کی بھی ذمے دارہے اب ہم چلتے ہیں نواز شریف کے اس بیانیہ کی طرف جس پر بحث شاید ہی کبھی ختم ہو سکے۔۔۔۔ نومبر2018ء میں جب ممبئی میں دھماکے ہوئے ۔حکومت تھی پیپلزپارٹی کی، انڈین حکومت نے الزام لگایا کہ اجمل قصاب کو دہشت گردی کیلئے پاکستان نے بھجوایا، بھارت اسلام آباد کو ٹارگٹ کر رہا تھا، پھر انڈین حکومت نے اجمل قصاب کا حسب نسب کھولا، پہلے اوکاڑہ کا نام آیا پھر دیپالپور کا اور اس کے بعد فریدکوٹ کا، پاکستانی میڈیا نے بھارتی اطلاعات پر اس گاؤں کی کھوج لگانا شروع کردیا، ایک میڈیا ہاؤس نے اس گاؤں تک پہنچنے کادعوی کیا،مگردوسرے میڈیا ہاؤسز یکسر ناکام رہے،غیر ملکی میڈیا بھی حرکت میں آیا،سب کی پھرتیاں اکارت گئیں ،اس نازک موقع پر جبکہ جناب نواز شریف اقتدار میں نہ تھے وہ ایک ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اوردعوی کیا کہ بھارتی معلومات درست ہیں،ہم نے انکوئری کی ہے اجمل قصاب پاکستانی ہے اور اس کا تعلق دیپال پور کے گاؤں فرید کوٹ سے ہے،یہ ساری تمہید صرف اس لئے باندھنا پڑی کہ آپ کو بتا سکیں کہ جناب نواز شریف نے اجمل قصاب کے بارے میں اپنا موقف گیارہ برس پہلے بھی پیش کیا تھا لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا، اس وقت میں حیرت زدہ تھا کہ کیا ن لیگ نے جاسوسوں کا نیٹ ورک بھی بنا رکھا ہے جو پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کی تصدیق کرتا ہے پھر ن لیگ کی حکومت آئی، نواز شریف وزیر اعظم بن گئے،ان کے دور حکومت میں ایک بار ممبئی دھماکوں پر ان کا بیان پڑھا،وہ اب اجمل قصاب کو پاکستانی شہری ماننے کو تیار نہ تھے، کہہ رہے تھے ممبئی دھماکے خود ہندوستان نے کرائے،،میں ان کا سرکاری بیان پڑھ کربھی حیرت زدہ تھا ،، کیا پاکستانی حکمران صرف اس وقت محب وطن ہوتے ہیں جب اقتدار ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے صحافی ہونے کے ناطے ہزاروں داستانیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں جو ہر اگلے دن قصہ پارینہ بن جاتی ہیں،ہم تاریخ دان تو نہیں لیکن گواہ بہت سارے رازوں کے ہوتے ہیں، ہمارا کام صرف عوام کو درست اور بر وقت اطلاعات کی فراہمی ہے اس سے آگے کچھ نہیںاب جبکہ ممبئے دھماکوں کو نواز شریف ماضی سے نکال کر زمانہ حال میں لے آئے ہیں تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ان کے حالیہ بیان پر اپنا صحافیانہ کردار ادا کریں تین بار وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے والے سے انگریزی روزنامہ کے رپورٹر نے تو سوال ہی کچھ اور کیا تھا، وہ تو پوچھا ہی نہیں تھا جو انہوں نے بتلا دیا عالمی ادارے پاکستان کو پابندیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں،پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے واچ لسٹ پر ہے،خزانہ خالی ہے، بیرونی قرضوں کی قسطیں چکانے کے لئے نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں، ڈالر نے روپے کی مت مار رکھی ہے، روپیہ کاغذ کا ٹکڑا بھی نہیں رہا، پانچ روپے والا نوٹ بند ہوئے بھی عرصہ ہو چکا، اورپانچ روپے کے سکے کی وقعت یہ ہے کہ بھکاری بھی ٹھکرا دیتا ہے، یا خدایا ! یہ کیا ہورہا ہے؟ روٹی آٹھ روپے کی،نان دس روپے کا، باپ کے پاس تین ماہ کی چھٹیوں کی جبری فیسیں جمع کرانے کی استعداد نہیں، شہر شہر خودکشیاں ہو رہی ہیں، صرف یوٹیلیٹی بل ہی عام آدمی کی تنخواہ اور آمدن سے زیادہ ہیں، پھر بھی سب کہتے ہیں،، پاکستان زندہ باد،، کیونکہ عوام کے پاس پاکستان کے نام سے بڑا کوئی اثاثہ ہے ہی نہیں ، اس ساری صورتحال میں تین بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے لوگوں سے ان کے وطن کا نام اور وطنیت کا احساس بھی چھیننے کی کوشش کر ڈالی،، کیوں؟ پہلے سب کچھ چھین کر بھی حرص نہ ختم ہوئی سب لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں،، کیوں،، نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے بعد جو نیا سفر جی ٹی روڈ سے شروع کیا تھا ،بیشک اس کی منزل انہیں نہ مل سکی، جلسے پہ جلسہ کیا،ریاستی اداروں کو گالی پہ گالی دی لیکن کچھ نہ مل سکا، ملک اور ادارے کسی کی گالیوں سے نیست و نابود ہو سکتے تو پھر آزادی اور غلامی کے لفظ ایجاد نہ ہوتے، پھر لوگ آزادیوں کی تلاش میں کبھی سولیوں پر نہ لٹکتے، پھر کبھی وطن پرستوں کو زنجیروں میں جکڑ کر ٹکٹکیوں پر کھڑا نہ کیا جاتا، پاکستان کے غیور عوام نے مادر وطن کی بقاء کیلئے یہ قربانیاں ہزار باردی ہیں، آپ کو کیا پتہ کہ مادر وطن کی آغوش کی لذت کیا ہوتی ہے؟ آپ نے تو اپنے گھر کا نام بھی جاتی عمرہ رکھ چھوڑا ہے کیونکہ آزادی آپ نے کبھی قبول ہی نہ کی، آپ کو کیا پتہ کہ اس آزادی کیلئے گھر گھر نے کیا کیا قربان کیا؟ اب جبکہ آپ کو یہ یقین ہوگیا کہ پنتیس سالہ اقتدار میں کرپشن کی وجہ سے احتساب سے بچنے کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں تو جناب نے پاکستان کو دہشت گرد اور دہشت گردوں کو پالنے والا ملک قرار دے کر دنیا کا رخ اپنی طرف موڑنے کی سعی کر ڈالی، آپ نے یہ سب بیرونی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے ہی تو کیا، آپ کے خیال میں دنیا کہے گی کہ دہشت گردی کے مخالف سیاستدان کو سزا دی جا رہی ہے، پاناما لیکس پاکستان کا نہیں عالمی مقدمہ ہے، آپ اپنی صفائی دینے میں ناکام رہے ہیں تو دنیا کیا کر سکتی ہے سوائے یہ کہنے کے۔۔ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔نواز شریف صاحب ! اتنا غصہ، اتنا بچگانہ غصہ۔۔ اس بچے کی طرح، جسے کھلونا نہ ملے تو وہ سب کے کھلونے توڑ دیتا ہے۔ ٭٭٭٭ اب ذکر ایک ای میل کا جو آئی تو میرے نام ہے لیکن در حقیقت ہے اتفاق اسپتال کی انتظامیہ کے نام ، لکھنے والے کا نام ہے آمین خان، تعلق اپردیر خیبر پختونخواہ سے، موبائل نمبر لکھ رہاہوں تاکہ کوئی دردمند رابطہ کر سکے۔۔03107769799۔ خاور نعیم ہاشمی صاحب! ہم جس (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) دنیا میں زندہ ہیں یہ ہر قسم کے لوگوں سے بھری پڑی ہے،کسی کو اپنے محلات اورمال و دولت کا اندازہ نہیں اور کوئی دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہا ہے،یہاں درد دل بہت کم اور درد دینے والوں کی بہتات ہے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے صحت مند اورخوش و خرم رہیں تعلیم حاصل کریں، کوئی ماں باپ اپنے بچوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے،حکمران روزانہ سیاسی بیانات جاری کرتے ہیں،دعوے کرتے ہیں کہ وہ غریبوں کے ساتھ ہیں،یہ جن غریبوں کی بات کرتے ہیں وہ تو اپنے بیمار بچوں کے علاج معالجے کیلئے اپنے جسمانی اعضاء بیچ رہے ہوتے ہیں، پھر بھی بچے صحت مند نہ ہوں تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں،میں ایک کسان ہوں، میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بڑا بیٹا بخت شیر دل کے مرض میں مبتلا ہے، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ڈاکٹر خٹک اس کا علاج کر رہے ہیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ بچے کو اے ایف آئی سی اسپتال راولپنڈی لے جاؤں، وہاں گیا تو اتفاق اسپتال (ٹرسٹ) لاہور ریفر کر دیا گیا، بچے کو اتفاق اسپتال لائے تو وہاں ڈاکٹر محمد عاصم خان نے ٹیسٹ لئے اور بتایا کہ بچے کے دل میں سوراخ ہے،علاج ممکن ہے لیکن ساڑھے پانچ لاکھ کا خرچہ ہے، میں نے اس سے پہلے اپنے صوبے سے بچے کے مفت علاج کیلئے صحت انصاف کا کارڈ بنوا رکھا ہے، اتفاق اسپتال کے ڈاکٹرز نے بتایا کی یہاں بیت المال یا صحت انصاف کے کارڈ نہیں چلتے،آپ کیش جمع کرائیں گے تو آپریشن ہوگا ورنہ نہیںمیں سرحد کے پہاڑی علاقے میں رہنے والا ایک غریب کسان ہوں، مٹی کا کچا مکان بھی کرائے کا ہے، بیوی کے زیور سمیت سب کچھ بیچ چکا ہوں ، جس بڑے بیٹے نے بڑھاپے کا سہارا بننا تھا وہ اب چلنے سے بھی معذور ہے، کیا پاکستان میں کوئی ہے جو نواز شریف کے غریبوں کیلئے بنائے گئے اتفاق اسپتال میں پیسے جمع کرا دے؟ تاکہ میرا بیٹا صحت مند ہوجائے اور گھر کی خوشیاں لوٹ آئیںنوٹ۔۔۔ زمین خان نے اتفاق اسپتال کے ڈاکٹر کا نام اور اسپتال کا فون نمبر، میڈیکل رپورٹس اور بچے کی تصاویر بھی بھجوائی ہیں۔