پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہمہ قسمی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ بلندو بالا پہاڑ، ندی، نالے،آبشاریں، جھیل، جھرنے، پہاڑوں کی تہوں میں چھپا سونا، لہلاتے کھیت، ہریالی فصلیں، لق و دق صحرا، صحراؤں کے نیچے دبی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کے آثار، ہرے بھرے جنگلات، جنگلات کے نیچے دفن خزینے یہ سبھی وطن ِ عزیز میں موجود ہیں۔ لیکن اچنبھے کی بات ہے کہ ہم دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہیں اور ہمیں اپنا بجٹ بنانے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں۔ جہاں بدعنوانی، بے ایمانی، اختیارات سے تجاوز، آئینی اداروں کے غیر آئینی اقدامات وطن عزیز کی زبوں حالی میں براہِ راست ملوث ہیں وہیں اِن کے بیچوں بیچ سب سے بڑی آفت پالیسی کا عدم تسلسل ہے۔ ہر حکومت نے غربت، مہنگائی، بدحالی اور سبھی کالے کارناموں کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرایاہے۔ کسی ایک حکومت نے آج تک سابقہ حکومت کے کالے کارناموں کو ایک طرف رکھ کر سابقہ حکومت کی اچھی پالیسیوں کو جاری رکھنا گوارا نہیں کیا۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم من حیث القوم اچھی باتیں لکھنا، اچھا سننا، اچھا بولنا، اور اچھا ہونا بھول چکے ہیں۔ ہم علاقائی و قومی ترقی کی پالیسی بنانا بھول چکے ہیں۔ہماری کوئی قومی پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہر حکومت جز وقتی پالیسی بناتی ہے تاکہ جلد سے جلد عوام کی نظروں میں اپنی اہمیت بنا کر اگلے دور کے لئے خود کو منتخب کراسکے۔ ایسا ہوتا چلا آرہا ہے کہ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو رد کرتے ہوئے نئی پالیسی بنانا شروع کردیتی ہے۔ یہ بْری عادت اب نچلی سطح تک عود آئی ہے۔ اب ہر بڑے سے بڑے اور ہر چھوٹے سے چھوٹے اداروں میں یہی قباحت پائی جاتی ہے کہ ہرادارے میں تعینات ہونے والا نیا سربراہ پچھلے سربراہ کا قد کاٹھ چھوٹا کرنے میں لگ جاتا ہے۔جیسے جب تک سابق سربراہ کو برا بھلا نہیں کہے گا وہ اپنا قد کاٹھ بڑا نہیں کرسکے گا۔ اْسے ذرا بھر کے لئے یہ اِحساس نہیں یا شاید اْس میں حوصلہ نہیں کہ وہ اْس ادارے کے سابق سربراہ کی اچھی پالیسیوں کو اپنا کر اپنے حصے کا چراغ جلائے تاکہ ادارہ پھلتا پھولتا رہے۔ اگر کسی ادارے کے سربراہ نے کسی ادارے کی تعمیر و ترقی میں دن رات ایک کردیئے ہوتے ہیں تو چندماہ یا چند سال کے اندر ہی اْسے اٹھا کر دوسری جگہ تعینات کردیا جاتا ہے یوں جہاں نیا سربراہ سابقہ سربراہ کو برا بھلا کہنا شروع ہوجاتا ہے وہیں سابقہ سربراہ کی اچھی منصوبہ بندی رک جاتی ہے۔ اور ایسے افراد جنہوں نے ایک ادارے کو زمین سے اْٹھا کر آسمان پہ پہنچادیا ہوتا ہے اْسے ایک اور جگہ تعینات کردیا جاتا ہے تاکہ وہ نئے سرے سے پھر صفر سے اپنا کام شروع کردے۔ مثلاََ چند سال قبل جولائی 2019ء میں جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو نئی جامعہ قائم کرنے کا ٹاسک ملا۔ تینتالیس سالہ انجینئر نے چار سال کے عرصہ میں ریت کے ٹیلوں میں ایک شاندار جامعہ کھڑی کردی جو آج پاکستان کی جامعات میں اپنی خاص پہچان رکھتی ہے۔ بعد ازاں اْنہیں بہاولپور کی جامعہ اسلامیہ میں وائس چانسلر تعینات کردیا گیا۔ جب اْنہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا چارج سنبھالا تو طلبہ وطالبات کی تعداد محض تیرہ ہزار تھی اور جامعہ وفاقی حکومت کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ پہ چل رہی تھی۔ پورا کیمپس دوپہر کے بعد ویرانی کا منظر پیش کرتا تھا۔ رات کے وقت ریت کے ٹیلوں سے نکل کرسانپ شعبہ جات کی عمارات میں داخل ہوجایا کرتے تھے۔ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے جامعہ اسلامیہ میں سولر پاور پلانٹ جیسے مردہ منصوبے کوپھر سے زندہ کردیا اور جامعہ کا کروڑوں روپے کا فائدہ کیا۔ایک منظم حکمت ِ عملی ترتیب دی اور جامعہ کی عمارات کو تین شفٹوں میں استعمال کرتے ہوئے مارننگ، آفٹر نون اور ایوننگ پروگرام شروع کئے۔ یوں طلبہ و طالبات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور یوں اْمڈ آئے جیسے شمع کے گرد پروانے اْمڈ آتے ہیں۔ 2019ء سے قبل جہاں طلبہ و طالبات اندرونی و بیرونی عناصر کی پشت پناہی پر مختلف منفی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بن کر اپنا اور دوسروں کا کیئرئیر داؤپہ لگادیتے تھے، پروفیسر اطہر محبوب نے رضوان مجید اور ڈاکٹر اظہر حسین کی سربراہی میں سٹوڈنٹ سوسائیٹز کا جال بچھاکر تقریبا ہر طالب علم کو کسی نہ کسی سٹوڈنٹ سوسائٹی کا حصہ بنا دیا۔ اب ہر طالب علم اور طالبہ کھیلوں سے لے کر ادبی، معاشرتی، فلاحی اور اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ اب جامعہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کی تعداد پینسٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ یونیورسٹی بین الاقوامی و قومی درجہ بندی میں جمپ لگا کر اولین نمبرو ں پہ آچکی ہے۔ جامعہ اسلامیہ جو کسی دور میں محض حکومتی گرانٹ پہ انحصار کیا کرتی تھی اب وہ خود کفیل ہوچکی ہے۔ اساتذہ کی تعداد چار سے بڑھ کر اٹھارہ سو تک پہنچ چکی ہے۔ ملازمین کی تعداد شاید چار ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ بیالیس کے عدد سے بڑھ کر تدریسی شعبہ جات کی تعداد ایک سو بتیس اور چھ فیکلٹیز سے بڑھ کر تعداد سولہ ہوچکی ہے۔ جہاں تین کل وقتی ڈین ہوا کرتے تھے اب وہ تعداد سولہ ہوچکی ہے۔ سینڈیکیٹ، سینٹ سمیت دیگر تدریسی باڈیز انتہائی منظم ہوچکی ہیں۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چار فیکلٹی عمارات کی چھتیں ڈل چکی ہیں۔ طلبہ و طالبات کے ہوسٹل تعمیر ہورہے ہیں۔ ایسے کئی منصوبہ جات کا آغاز ہوچکا ہے جو شاید اگلے دو سال کے اندر پایہ ِ تکمیل کو پہنچیں گے اور جامعہ اسلامیہ جنوبی پنجاب کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ بن کر سامنے آئے گی۔ اِس ساری صورتحال میں اگر اِس وقت کپتان کو تبدیل کردیا جاتا ہے تو لامحالہ اِس ادارہ کو ریورس گئیر لگ جائے گا اور ترقی کا یہ پہیہ کئی زاویوں سے رْ ک جائے گا۔ اِس لئے حکومت کو چاہئے کہ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب سمیت دیگر ایسے ولولہ انگیز افراد اداروں کی بہتری اور تعمیر و ترقی میں منظم اور فعال کردار ادا کررہے ہیں اْن کی تعیناتی نہ صرف اْنہی اداروں میں برقرار رکھی جائے بلکہ اْن کی بھرپور سیاسی و مالی سرپرستی کی جائے تاکہ ہمارے قومی تدریسی ادارے خود کفیل ہوسکیں۔