اسلام آباد (خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے صحافیوںکو ہراساں کرنے کے معاملے پرجسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ کے ازخود نوٹس کو واپس لے لیا اور قرار دیا کہ ازخودنوٹس لینے کا اختیارصرف چیف جسٹس کو حاصل ہے کوئی بنچ اپنے طورپر ازخودنوٹس نہیں لے سکتا۔ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس نمٹا کر قرار دیا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ غور کے لیے چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے گا۔عدالت نے از خود نوٹس اختیار کے استعمال کا طریقہ کار طے کرتے ہوئے قرار دیا کہ از خود نوٹس صرف چیف جسٹس یا ان کی منظوری سے ہی لیا جاسکتا ہے ۔عدالت نے دو رکنی بنچ کے آرڈر کو واپس لیتے ہوئے قرار دیا بنچز کی جانب سے لئے گئے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کے مطابق ہوگی اور ازخود نوٹسز کیس وہی بینچ سنے گا جس کے پاس زیرالتوا ہے لیکن بنچ ازخود کسی کو طلب کر سکتا ہے نہ رپورٹ منگوا سکتا ہے ، بنچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بنچ ہی کریں گے جبکہ آئندہ کوئی بھی بینچ از خود نوٹس کے اختیار استعمال کرنے کے لئے فائل چیف جسٹس کو بھیجے گا۔ لارجر بینچ نے ازخود نوٹس اختیار کے استعمال کے تعین سے متعلق کیس پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور بعد میں مختصر فیصلہ صادر کردیا۔قبل ازیں دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف شکایت قائم ہے ،صحافی معاشرے کی آواز اور ضمیر ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اظہار رائے کی آزادی آئینی حق ہے ،جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا آزادی صحافت پر حملہ سپریم کورٹ پر حملہ ہے ۔سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے تجویز دی کہ مجوزہ پانچ رکنی لارجر بینچ از خود نوٹس اختیار کے استعمال کے تعین کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہ کرے اور چیف جسٹس کی وطن واپسی تک اسے موٗخر کرے ۔وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل خوشدل خان نے دو رکنی بینچ کی طرف سے از خود نوٹس لینے کا دفاع کیا ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ بنچ نوٹس لے سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عدالت میں درخواست وصول کی جاسکتی ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ہم بنیادی حقوق کے ضامن ہیں ۔صدر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن امجد بھٹی نے بتایا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مکمل اعتماد ہے ۔درخواست گزار عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ 184(3) کا دائرہ اختیار ڈائریکٹ سپریم کورٹ نے استعمال کرنا ہوتا ہے ، لطیف آفریدی نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے اور دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال ہو رہے ہیں،ازخودنوٹس لینا سپریم کورٹ کا ہی اختیار ہے ،اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنچ سے الگ کرنے سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب بنچ بن جائے ، کاز لسٹ جاری ہو جائے ، بنچ سماعت شروع کردے تو چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ختم ہو جاتا ہے ،سپریم کورٹ کا ہر بنچ سپریم کورٹ ہے ۔