آج کل ہر شعبے میں بہار آئی ہوئی ہے وہ سیاست ہو معاشرت معیشت ہو یا فنون لطیفہ ادبی شمارے ہوں یا ادبی ادارے ہر قسم کے لطیفوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔میدان سیاست ہی کم نہ تھا اب اداکاری اور گلوکاری میں ان کے قدوم میمنت لزوم سے ان شعبوں کو چار چاند لگ گئے ہیں۔سیاست کا برا ہو اگر کسی استاد چاہت کا ذکر مقصود ہو تو لوگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان سے کسی سیاست دان کی شباہت یا مشابہت سے ملا لیتے ہیں یوں لکھنے والا مفت میں بدنام ہوتا ہے۔اصل میںیہ زمانہ لاہور کے پاووں اور استاد چاہتوں کا ہے۔ حاسدین ہر دور میں ہوتے ہیں سو ان دونوں سے جلنے والے بھی بہت سے ہیں اور دل کے پھپھولے جلانے کے لیے الم غلم شعر لکھتے رہتے ہیں کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ ملے پڑ چھچھوندارں گاہلڑاں نے شیر جان بجھ کے گوشہ گیر ہو گئے۔ (چھپکلیوں اور گلہریوں نے میدان سنبھال لیے ہیں شیر جانتے بوجھتے گوشہ گیر ہو گئے ہیں)۔اب ان کے ہی نام کا سکہ چلتا ہے۔ہلاکو خان نے درختوں کی چھال کا سکہ ایجاد کیا تھا۔وہ سونے کے بدلے یہی چھال کی کرنسی کے بانی تھے۔یہی پیپر کرنسی کی ابتدا بھی تھی۔منگول خاندان کی تباہی کے دوران سعدی، عطار، رومی اور حافظ بھی اپنا چراغ جلائے ہوئے تھے۔وہ زمانہ گیا اب استادان ِ فن چاہت علی خان اور اختر لاوا کا زمانہ ہے۔ہم خود ان دو اساتذہ کے فین ہیں۔ان دونوں فنکاروں نے سیاست دانوں کی طرح اپنا لوہا منوایا ہے۔ آج ہم موسیقی کے محسن جناب استاد چاہت علی خان پر ہی توجہ مرکوز رکھیں گے گو کہ اختر لاوا کا بھی اپنا ایک مقام ہے ان کا بھی حق بنتا ہے کہ ان کی سیاسی بصیرت پر روشنی ڈالی جائے اسے ہم کسی اور مناسب موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ہمارے لڑکپن میں اسد امانت علی خان آنکھیں غزل ہیں آپ کی اور ہونٹ ہیں گلاب گا کر ہٹ ہوئے تھے۔یہ گانا انہوں نے فلم سہیلی کے لیے گایا تھا۔مگر وہ کیا گیت تھا اس کے مقابلے میں ہمارے ممدوح نے چودہ اگست کے حوالے سے گانا گا کر آغاز کیا اور دنیائے موسیقی میں روشناس ہوئے اس کے بول دیکھیے یہ جو جھنڈا ہے یہ جو پیارا جھنڈا ہے اس میں ڈنڈا ہے اس گانے کے بعد ہر طرف چاہت چاہت ہو گئی۔مگر اصل شناخت ان کو اس شہرہ آفاق گیت نے دی اس کے بول بھی بہت رسیلے تھے اور اوپر سے استاد کی آواز نے قیامت ڈھا دی تھی۔اگرچہ ڈھہہ نہیں رہی تھی تاہم استاد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے اور قیامت ڈھا دی۔قیامت ڈھانا اور لنکا ڈھانا ان کے سر کی اولین پہچان ہے۔ تن تانا تن او نچ او نچ او نچ سوہنیے سوہنیے سوہنیے اسی پر استاد نے بس نہیں کی۔انہوں نے نصرت فتح علی خان کی مشہور قوالی سانسوں کی مالا پہ سمروں میں تیرا نام اس گیت نے تو استاد کو امر ہی کر دیا۔ ان کا تازہ ترین گیت دم مست قلندر آل دے وے فرام لندن میرا نام کیا۔بس یہ گانا ریلیز ہونے کی دیر تھی کہ ان کے عشاق کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔وہ شاعر بھی ہیں اور اپنا گانا بھی خود لکھ لیتے ہیں۔ موسیقی نے ان کی بہت منت کی تھی کہ اس میں قدم نہ رکھیں مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔ایک سال سے ان کے گانے تن تانا تن نے تو دھوم مچا رکھی ہے۔بس یہی گانا تھا کہ ہم ہمیشہ کے لیے استاد چاہت خان کے ہو گئے۔ان کا کہنا ہے کہ تن تانا تن گانا لکھتے وقت ان کی کئی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے اب یہ گانا جو بھی سنتا ہے اس کی نیند اڑ جاتی ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ اس گانے نے موسیقی سے وابستہ لوگوں کی بھی نیند حرام کر دی ہے۔پہلے کہا جاتا تھا کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔اب یہ مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا روح کی غذا حرام بھی ہو سکتی ہے۔استاد چاہت علی خان سے جب ہم نے اس بابت دریافت کیا تو وہ شاید اس سوال کی نزاکت کو نہ سمجھ اور جواب کی جگہ ہنسنے پر اکتفا کیا۔تاہم ہمارا اپنا خیال ہے کہ روح کی غذا حرام ہو سکتی ہے۔اور اس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے مگر استاد نے اس کو بالکل مائنڈ نہ کیا۔یہ دیکھ کر ہمیں از خود بتانا پڑا کہ استاد جی آپ پر طنز ہو رہا ہے مگر وہ اپنی جگہ مطمئن دکھائی دے۔ان کی موسیقی کے لیے بے پایاں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے ساتھ ایک شام منانے کا پروگرام بنایا کیوں کہ آج کل اپنے شہر میں شام منانے کا بہت رواج ہو رہا ہے۔ان کے اعزاز میں برپا تقریب میں کی جہاں ان کو خراج تحسین پیش کرنا تھا ک کسی نے بھی آنے کی زحمت گوارا نہ کی۔تو ہم از خود سٹیج پر چڑھ گئے بالکل ویسے ہی جیسے وہ موسیقی پر چڑھ دوڑے ہیں۔تقریب میں ہم نے ان کے ظہور کو موسیقی کے نئے عہد سے تعبیر کیا۔اور ان کو بابائے موسیقی کی بجائے ان کا نام استاد تن تانا تن تجویز کیا جو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔پہلے ان کی ضد تھی کہ انہیں مامائے موسقی یعنی موسیقی کا ماماں کا خطاب دیا جائے تا ہم تن تانا تن کے لقب پر انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ایک تاریخی جملہ کہا کہ مجھ سے موسیقی کو سمجھنے والے اور قدردان اب خال خال ہی باقی ہیں۔ ایسی تقریبات ہم ادبی اداروں کے بارے میں برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کالموں میں ان کا ذکر بھی ہوتا رہے گا۔ ٭٭٭٭٭