اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جارحیت کا عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت سیلف ڈیفنس یعنی اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا انٹر نیشنل لا کی روشنی میں یہ ایک درست موقف ہے؟ اقوام متحدہ کا چارٹر یہ حق اس ریاست کو دیتا ہے جس پر حملہ ہوا ہو، یہ حق قابض ریاست کوحاصل نہیں ہے۔ چونکہ فلسطین کے علاقے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی قبضے میں ہیں اس لیے سیلف ڈیفنس کا حق فلسطینیوں کو ہے، نہ کہ اسرائیل کو۔ غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا۔ انٹر نیشنل لا کی روشنی میں یہ قبضہ ناجائز ہے۔امریکہ اور اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ 2005 میں غزہ سے انخلا کے بعد وہ مقبوضہ علاقہ نہیں تھا۔تاہم غزہ وغیرہ میں اسرائیل کی فوج کا موجود نہ ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہاں اسرائیل کا قبضہ نہیں۔ عملا یہ مقبوضہ علاقے ہی ہیں۔ یہاں کی حکومت کی طاقت اور عملداری محدود ہے۔ یہ محصور علاقے ہیں جو عملی طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 43 کے تحت یہاں کے باشندوں کی صحت سلامتی قابض فوج کی ذمہ داری ہے۔ وہ اگر حملے کر کے دس ہزار سے زیادہ شہریوں کو قتل کر دیتی ہے تو اسے سیلف ڈیفنس نہیں بلکہ جنگی جرم تصور کیا جائے گا۔ اصطلاحات کے گھن چکر سے قطع نظر غزہ ہو یا مغربی کنارہ، کوئی بھی مروجہ معنوں میں آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔2014 میں انٹر نیشنل کرمنل کورٹ نے بھی غزہ اور مغربی کنارے کو عملامقبوضہ علاقہ قرار دیا۔ عملی طور پر یہ علاقے اسرائیلی مقبوضہ جات ہیں، وہ دیگر ریاستوں کی طرح خود مختار نہیں ہیں، وہ بیرونی دنیا سے اسرائیل کی مرضی کے بغیر رابطے نہیں رکھ سکتے، وہ زمینی اور سمندری اطراف سے محصور ہیں، ان کی عملداری ایک میونسپل کارپوریشن سے زیادہ نہیں، انہیں اسرائیل باقاعدہ فوج رکھنے کی اجازت نہیں دیتا تو پھرانتہائی محدود جزوی اختیارات دے کر اسرائیل یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ یہاں قابض نہیں۔ اس کی حیثیت ایک قابض ہی کی ہے۔ قبضہ کیا ہوتا ہے؟ چوتھے ہیگ کنونشن کے آرٹیکل 42 میں اس کا جواب موجود ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جس علاقے میں دشمن فوج کی اتھارٹی نافذ کی جا سکتی ہو وہ علاقہ اس کے قبضے میں تصور ہوتا ہے۔ حالیہ اسرائیلی جنگ سے پہلے، اگر چہ اسرائیل کی فوجیں وہاں موجود نہیں تھیں تاہم جنیوا اکیڈیمی آف انٹر نیشنل ہیومینیٹیرین لا اینڈ ہیومن رائٹس کے مطابق زمینی ہوائی اور سمندری راستوں کو مسدود کر کے اسرائیل نے یہاں عملا اپنا موثر کنٹرول باقی رکھا ہوا ہے۔(یہ بحث اس وقت تک کی صورت حال کے تناظر میں ہے، آگے چل کر غزہ کی صورت کیا ہوتی ہے، یہ اس وقت واضح نہیں ہے)۔ اس سلسلے میں چند امور توجہ طلب ہیں: 1.غزہ کی فضائی حدود پر کس کا قبضہ ہے؟ کیا دنیا سے کوئی فلائٹ غزہ جا سکتی ہے؟ کیا اسرائیل کی مرضی اور اجازت کے بغیر غزہ میں کوئی طیارہ امداد لے کر یا کسی کاروباری سلسلے میں اتر سکتا ہے؟ 2.غزہ کی فضائی حدود میں داخلے کی اجازت صرف اسرائیلی طیاروں کو ہے جو جب چاہیں کہیں بھی بم گرا سکتے ہیں۔ 3.غزہ کی فضائی حدود میں داخلے کے لیے کیا اسرائیل غزہ سے اجازت طلب کرتا ہے؟ کیا اسے ایسی کسی اجازت کی ضرورت بھی ہوتی ہے؟ -4جب وہ بلا اجازت غزہ کی فضائی حدود میں جہاز اڑاتا پھرتا ہے ا ورا س کی مسلسل نگرانی کرتا ہے تو کیا عملا غزہ اسی کا مقبوضہ علاقہ نہیں ہے؟ 5.کیا غزہ کی اپنی کوئی فضائیہ ہے؟ کیا اس کا کوئی ایئر ٹریفک کا نظام ہے؟ کتنے ایئر پورٹس ہیں جہاں سے غزہ کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ہے؟ 6.غزہ کے ساتھ سمندر لگتا ہے۔ غزہ کی سمندری حدود پر کس کا قبضہ ہے؟ کیا اپنے ٹیریٹوریل واٹرز پر غزہ کا کوئی کنٹرول ہے؟ کیا غزہ کا اپنے سمندر کے ذریعے باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ہے؟ 7.غزہ کے زمینی راستوں پر کس کا کنٹرول ہے؟ کیا غزہ باہر کی دنیا سے کسی قسم کا آزادانہ رابطہ یا تجارت کر سکتا ہے؟ 8.جب غزہ کے لیے ماوی مرمرہ جا رہا تھا تو اسے کس نے روکا؟ وہ غزہ کیوں نہ جا سکا؟ مسافر کس نے گرفتار کیے؟ وہ کس کی قید میں رہے؟ 9.رفاح کراسنگ پر عملا کیا آج بھی اسرائیل کا کنٹرول نہیں؟ کراسنگ کے لیے فلسطین پاپولیشن رجسٹری کا انتظام اسرائیل ہی کے پاس نہیں؟ 10.رفاح کراسنگ کے اصول و ضوابط کے معاملے مصر غزہ والوں کی بات مانتا ہے یا خود کو اسرائیلی ضابطوں کا پابند سمجھتا ہے؟ 11.کیا اسرائیل اور مصر کے درمیان یہ معاہدہ نہیں ہے کہ رفح کراسنگ ہی کو اسرائیل اور مصر کے درمیان بین الاقوامی سرحد سمجھا جائے گا؟ 12.غزہ اور مغربی کنارے میں آبادی کا ریکارڈ کس کے زیر انتظام ہے؟ پیدائش کے اندراج سے لے کر شناختی کارڈ تک کا اجرا کیا اسرائیل کے انتظام میں نہیں ہے؟ ریکارڈ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے اسرائیل کی اجازت ضروری ہے۔فلسطینی اتھارٹی پاسپورٹ صرف ان کو جاری کر سکتی ہے جو اسرائیل کی تصدیق شدہ پاپولیشن رجسٹری کے ریکارڈ میں موجود ہوں۔ 13.فلسطینیوں کا صرف وہی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ درست سمجھا جاتا ہے جس پر اسرائیلی کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ 14.غزہ کے شہریوں کو مغربی کنارے کا شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ا سرائیل کا حکم ہے،بھلے وہاں ان کی جائیداد ہو اور وہ کارڈ کے حقدار ہوں۔ 15.غزہ کی زرعی زمین کا ایک تہائی اسرائیل نے ہی نو گو زون قرار دے رکھا ہے۔ کیا یہ قبضہ نہیں ہے؟ یہ ایک طویل فہرست ہے تاہم زیر بحث موضوع کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ ایک قابض قوت کے طور پر اس پر عائد اقوام متحدہ کے قوانین بھی ساقط ہو جائیں، اس کا قبضہ بھی عملا برقرار رہے اور بظاہر وہ یہ کہتا رہے کہ وہ ایک قابض قوت نہیں۔ نیز یہ کہ مقبوضہ علاقہ جات کے لوگوں کا مسلح جدوجہد کا حق بھی ان سے چھین لیا جائے کہ جب ان کے علاقے مقبوضہ جات ہیں ہی نہیں تو مزاحمت کیسی؟ تاہم اسرائیل اور اس کے حلیفوں کا یہ موقف اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی ادارے نے قبول نہیں کیا اور اس کی حیثیت ایک قابض قوت ہی کی ہے۔ اور قابض قوت خود جارحیت کی مرتکب ہوتی ہے، اسے حق دفاع حاصل نہیں ہوتا۔ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی اس سوال کا جواب بڑی قطعیت کے ساتھ دے رکھا ہے کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔ دفاع کا حق انہیں حاصل ہے جو عشروں سے اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیںاور جن کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں۔