قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ بڑا واضح ہے ۔ ہدیبیہ پیپر ملز کیس میں جب اسحاق ڈار کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف164 کا بیان سامنے آیا تھا تو جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک تاریخی ججمنٹ دی تھی۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا تھا کہ 164 کابیان صرف تبھی قانونی حیثیت رکھتا ہے جب وہ بیان ملزم کے سامنے دیا گیا ہو،صرف یہی نہیں بلکہ ملزم کو بیان دینے والے شخص سے جرح کو موقع بھی فراہم کیا گیا ہو۔اپنے فیصلے میں قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا تھا کہ اسحق ڈار کا بیان تبھی قانونی حیثیت رکھتا جب یہ بیان شریف خاندان کے سامنے ریکارڈ کرایا گیا ہوتا اور شریف خاندان کو اسحاق ڈار سے جرح کا موقع بھی فراہم کیا گیا ہوتا ۔ چونکہ اسحق ڈار کا بیان ریکارڈ کرتے وقت یہ قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے لہذا اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے نامزد چیف جسٹس کی یہ واضح ججمنٹ ظاہر کرتی ہے کہ اعظم خان کا بیان ردی کا ایک ٹکڑا ہے کیونکہ یہ نہ تو اس شخص کی موجودگی میں ریکارڈ ہوا ہے، جس کے خلاف یہ دیا گیا ہے اور نہ ہی ملزم کو اعظم خان سے جرح کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کی روشنی میں اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ کیا اعظم خان کے اس بیان کی قانونی نہ سہی سیاسی حیثیت ہے؟ یعنی تحریک انصاف نے جس سائفر کی بنیاد پر ایک بیانیہ بنایا اور پوری تحریک کھڑی کی کیا اس بیان کی روشنی میں وہ بیانیہ زمیں بوس ہو گیا ہے؟ اس سوال کا جواب چند مزید سوالوں میں چھپا ہوا ہے۔ ایک سوال یہ کہ اگر اعظم خان کے مطابق سائفر کہانی سیاسی فائدے کے لیے ڈرائینگ روم میں گھڑی گئی ایک کہانی ہے تو پھر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے دو بار اس سائفر کو پاکستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت قرار کیوں دیا تھا؟ اور اس پر امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیوں ہوا تھا۔کیوں کئی دن تک یہ بحث ہوتی رہی کہ یہ سائفر پاکستان کے خلاف سازش ہے یا صرف مداخلت۔ مداخلت پر تو سب کا اتفاق تھا، بحث صرف یہ ہوتی رہی کہ یہ سازش ہے یانہیں۔کچھ عرصہ پہلے یہ بحث بھی ہوئی کہ سائفر گم ہو گیا ہے یا عمران خان اپنے ساتھ لے گئے، رانا ثنا اللہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ سائفر کہیں نہیں گیا وزارت خارجہ کے پاس موجود ہے۔ان تمام شواہد کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ سائفر بحرحال اپنا وجود تو رکھتا ہے تبھی تو اسے متفقہ طور پر پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا گیا تھا اور تبھی تو امریکی سفیر کو بلا کر اس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ایک اور سوال بھی ہے کہ کیا پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اعظم خان کے بیان سے سیاسی فائدہ ہو گا اور اب انہیں عوامی حمایت لینے میں آسانی ہو گی؟میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اب اگلے انتخابات سائفر یا امریکی سازش کی بیانیے کی روشنی میں تو ہونے ہی نہیں ہیں۔ اب اگلے انتخابات کچھ اور عوامی ایشوز پہ ہونے ہیں ۔ شدید مہنگائی، تباہ حال صنعتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری، تباہ حال کاروبار، عوامی جذبات کے خلاف حکومتی طاقت کا استعمال، بے جا گرفتاریاں،عوامی امنگوں کے مطابق دو صوبوں میں الیکشن کا انعقاد نہ ہونا اور ایسی ہی کچھ چیزیں انتخابات کا موضوع بنیں گی۔سائفر کی کہانی ڈیڑھ سال پیچھے رہ گئی،بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا۔موجودہ حکومت اس وقت عوام میں اس قدر غیر مقبول ہو گئی ہے کہ اعظم خان کے بیان سے اس کی ساکھ کی بحالی آسان دکھائی نہیں دیتی۔ ایک اور پہلو سے بھی اعظم خان کے بیان کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔اعظم خان آٹھ جون سے لاپتہ تھے۔ ان کی گم شدگی کے حوالے سے ایک ایف آئی آر بھی تھانہ کوہسار میں درج کرائی گئی تھی۔پوری ریاست مل کر ایک سینئر ترین بیوروکریٹ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا الزام تھا کہ اعظم خان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ریاست کے تمام ادارے مل کر اعظم خان کو ڈھونڈ نہ پائے اور اچانک ان کا ایک مبینہ بیان سامنے آ گیا۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ تحقیقات کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ اعظم خان کہاں تھے اور کیا ان کا یہ بیان کسی دبائو کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ حکومت کے اہداف واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اعظم خان کے مبینہ بیان کی روشنی میں اب ایف آئی اے کو تحریک انصاف کے بچے کھچے رہنماوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ خود تحریک انصاف کے چیئرمین کو 25جولائی کو ایف آئی اے نے طلب کر لیا ہے جبکہ اسد عمرا ور شاہ محمود قریشی کو 24جولائی کو بلایا گیا ہے تاکہ ان سے اس سائفر کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے۔ حکومت کو نہ جانے ایسے مشورے کون دے رہا ہے۔ چیئر مین تحریک انصاف کو اگر نا اہل اور گرفتار کرنا مقصود ہے تو اس کے لیے کئی کیسز پہلے سے موجود ہیں ۔ مگر گڑے مردے اکھاڑ کر حکومت نہ صرف اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے بلکہ حساس نوعیت کے معاملات کو پھر سے سر بازار لا کر تماشا بنا رہی ہے۔ ایک بار پھر امریکی حکومت کو اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا پڑا ہے ، ردعمل دینے والا امریکی نمائندہ الجھن کا شکار دکھائی دیتا تھا اور اسے کہنا پڑ ا کہ وہ کئی بار پہلے بھی ایسے سوالوں کا جواب دے چکا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو بیوقوفو! کب تک پرانی باتوں میں الجھے رہو گے، تمہیں احساس کیوں نہیں کہ تمہارے ساتھ کیا ہو چکا ہے۔ ٭٭٭٭٭