ادیو کوینیکان نے کہا ہے ’’مجھے وہ لوگ دکھائیں جن کو آپ کے ملک کے نوجوان اپنا ہیرو اور رہبر مانتے ہیں، میں آپ کو آپ کے ملک کا مستقبل بتائوں گا ۔انتخابات کا فیصلہ عوامی خواہش کے خلاف ہی سہی مگر قوم کے مستقبل کی ایک پیش گوئی علامہ اقبال نے بھی کی ہے’’قومیں شاعروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں جبکہ سیاستدانوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہیں۔پاکستان اور پاکستانیوں کے مستقبل کا اندازہ انتخابی عمل اور مہم کے دوران شاعروں کے کلام سے لگایا جا سکتا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا ہم اندھیرے سے ڈرنے والے بچے کو تو معاف کر سکتے ہیں مگر جب بڑے روشنی سے ڈرنے لگیں تو المیے جنم لیتے ہیں۔ مسائل اور بحرانوں کے اندھیروں میں ناک ناک غرق پاکستان کے عوام نے 8فروری کو اندھیروں سے نکلنے کے لیے ووٹ کی صورت میں امید کی روشنی کے دیئے جلائے۔ اندھیرے کو چیرتی روشنی کی ایک دھیمی سی کرن سے اگر اندھیرے چھٹ نہ بھی پائیں تب بھی روشنی کی سمت کا تعین ضرور ہو جاتا ہے تاہم اندھیرے سے نکلنے کے لیے اس روشنی کی سمت چلنا پہلی شرط۔ پاکستانیوں کا المیہ تو یہ بھی ہے کہ یہ فیصلہ کس نے کرنا ہے کہ روشنی کی سمت چلنا ہے یا اندھی سرنگ میں مخالف سمت میں ہی کھدائی ہی کرتے رہنا ہے!نشطے نے کہا ہے: معاملات کے حل کا انحصار حالات کی تعبیر اور تفہیم پر ہوتا ہے اور تعبیر اور تفہیم کا اختیار ہمیشہ طاقت کے پاس ہوتا ہے نا کہ حق کے ۔ بدقسمتی سے جن کے پاس تعبیر اور تفہیم کا اختیار ہے وہ 8فروری کے دیوں کی روشنی کی طرف حائل ہونے پر ہی آمادہ نہیں۔ طاقت ہمیشہ انا کی اسیر ہوتی ہے اور کمزور کی جسارت کا جواب طاقت سے نہ دینا اپنی توہین گردانتی ہے۔ 8فروری سے پہلے اور بعد بدقسمتی سے پاکستان اسی بحران سے اسیری کا شکار ہے۔ فیصلہ سازوں کو پختہ یقین ہے کہ 18اور 25 سال کا ایک تہائی ووٹر پاکستان کو لاحق خطرات کو سمجھنے اور ان کے تدارک کی بصیرت اور اہلیت نہیں رکھتا اور غلط سمت نکل سکتا ہے۔ اسی اندیشے کے پیش نظر 8فروری کو فیصلے کے دن تک منہ زور یوتھ کی رفتار کم کرنے کے لیے بیریئر لگائے گئے تا کہ اختیار اور طاقت جو روشنی دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کو بھی وہی روشنی دکھائی جا سکے۔ 8فروری کو منہ زور یوتھ نے تمام بیریئرز توڑے اور 9فروری کو آہنی دیوار سے جا ٹکرائی۔ پاکستان کے مستقبل کے 9 فروری کو آہنی دیوار سے ٹکراتے اور لہولہان ہوتے دیکھ کر ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر کے ضمیر نے اسے خود کشی پر مجبور کرنا شروع کیا تو اس نے حادثہ کا سبب بننے والے اپنے سمیت دیگر ملزمان کو کچہری چوک میں پھانسی دینے کا مطالبہ کر کے لنکا ہی ڈھا دی۔ کمشنر راولپنڈی اس جسارت پر اہل دانش کی طرف سے پاگل ٹھہرائے گئے تو اس اعتراف جرم کے بعد اہل جنون نے عدل کی زنجیر کھینچنا شروع کی اور شکوہ کناں ہیں: جن چراغوں سے شبستانِ حکومتِ رشک طور ان چراغوں میں نہیں ہے روشنی میرے لئے جو ’’انصاف‘‘ کسی کی ایئرپورٹ پر ضمانتیں لینے پہنچ گیا تھا ۔اس کے کانوں تک زنجیر عدل کی گونج نہیں پہنچ رہی ! اہل جنوں عوام کے ووٹ کی روشنی کے دیئے ہاتھوں میں لیے حق انصاف کی دہائی دیتے پھرتے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف طاقت کی تفہیم نے الیکشن مہم کے دوران ایک دوسرے کو گریبان پکڑنے کے دعویداروں کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔ نظریاتی تضادات کے شکار جیالے اور متوالے دلدل میں پھنسی ریاست کو باہر کھینچنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور تو لگا رہے ہیں یہ الگ بات کہ باہر کھینچنے کے بجائے اپنی اپنی جانب متضاد سمت میں زور لگا یا جا رہا ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ مل کر ہی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی کوشش۔ بقول شاعر ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسائے بیٹھے ہیں اب بتا کون سے دھاگے کو کس سے جدا کریں اہل اختیار جس دھاگے کو جدا کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں ’’انصاف‘‘ کو ڈر ہے کہ یہ دھاگہ جدا ہوا تو انصاف کا تانا بانا ہی بکھر جائے گا۔ اس لیے الجھے ریشم کو توڑ کر جدا کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے یہ ہچکچاہٹ ریشم کی گتھی کو مزید الجھا رہی ہے۔ پاکستانیوں کے مقدر کی فیصلہ سازی میں اصل مسئلہ عالمی اہل نظر کا بھی ہے جو چھپتے ہیں نہ کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اہل نظر کی یہ آنکھ مچولی شاید ہے ہی اس لیے کہ پاکستانیوں کی راہ کھوٹی رہے اور پاکستانی روشنی کی سمت کے تعین کی گتھی کو سلجھانے میں ہی الجھے رہیں۔ پاکستان کے حالات پر ہی شاعر نے کہا ہے غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے مائرون فیگن پولی کے معانی بہت زیادہ اورٹکس کا مطلب خون چوسنے والے بتاتا ہے۔ پولی ٹکس کا مطلب باقی دنیا کے لیے عوام اور ریاست کے معاملات کے حل کا عمل ہو تو ہو مگر ہمارے ہاںمائرون فیگن کی تعریف ہی صادق دکھائی دیتی ہے۔ اہل دل جو پاکستان کا درد رکھتے ہیں بھلے ہی ان کا درد کے علاوہ کسی چیز پر حق تسلیم نہیں کیا جاتا پھر بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ 8فروری ملکی تاریخ اور پاکستانیوں کے مستقبل کے فیصلوں میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ دیر سویر ’’ووٹ‘‘ کی روشنی بے اختیار اور با اختیار سب کو اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ دلیل جارج جین ناتھن کے قول کو بناتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کو وہ اچھے شہری منتخب کرتے ہیں ۔جو ووٹ نہیں کرتے ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اس بار 8فروری کو نوجوانوں جس عزم اور حوصلے سے ووٹ کرنے نکلے یہ عزم ناقابل شکست ہے اور اگلے الیکشن اور اس کے بعد آنے والے الیکشنز میں قافلوں میں قافلے شامل ہوں گے اور ایک دن پوری قوم ہی روشنی کی جانب محو سفر ہو گی۔