رشتہء آب کیا حباب کے ساتھ آب ملتا ہے آخر آب کے ساتھ میں نے سیکھا خزاں کے موسم سے رنگ وبو ہے فقط شباب کے ساتھ خزاں رسیدہ موسم میں تو پیلے اور سوکھے پتے ہی اڑتے ہیں اور وہ ہوا کے دوش پر ہوتے ہیں۔کچھ ایسی ہی صورت حال سیاست میں آئی ہے۔ایسے میں منیر نیازی کی نظم کی وہ لائنیں یاد آ گئی شاں شاں کر دے رکھ پیل دے تے انھیاں کر دیاں وا واں۔اوس رات دے بہتے لوکی بھل گئے گھر دیاں راہواں۔اگرچہ اس وقت بہار پوری طرح گزری نہیں مگر سیاست میں موسم گرم کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے اور پھر موسم ہووے جس دا گہنا اوہو پھل ٹہنی تے رہنا۔ اب عدلیہ اور پارلیمنٹ ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ پارلیمنٹ خم ٹھونک کر سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہو گئی ہے اور یہ خطرناک بات ہے ۔وزیر اعظم نے قربانی دینے کا طے کر لیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا کام ثالثی یا پنچائت نہیں۔ سپیکر نے کہا ہے کہ تین رکنی بنچ کے فیصلے وہ نہیں مانتے۔ تحفظات کا یہی مفہوم ہوتا ہے۔پارلیمنٹ میں سوموٹو کو ساسو موٹر کہا گیا یہ جو ویڈیو لیکس ہیں انہوں نے بہت گند ڈال دیا ہے دلچسپ بات یہ کہ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی تو ایسی صورت میں آئین کہاں کھڑا ہے وہ 90دن میں الیکشن کروانے کا حکم ہے کہاں جائے گا کوئی کیا کہے کہ سب اجتماعی خودکشی کے لئے تیار ہیں بلکہ یوں کہیں کہ شہادت کا شوق چرایا نہیں بلکہ دیدہ دانستہ ہے۔ اصل میں پی ڈی ایم کے جہاندیدہ و بارچشیدہ رہنما نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں چنانچہ وہ دیوار گرانے پر آ گئے ہیں وہ لوگوں کے سامنے ایک نئے اعلامیہ یا بیانیہ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ اب ایک نظر خان صاحب پر بھی ڈال لیتے ہیں کہ اصل میں اس گھمبیر صورت حال میں ان کے پاس کھونے کے لئے بہت کچھ ہے کہ واقعتاً وہ صورت حال نظر آ رہی ہے کہ جو کبھی بھٹو کے لئے تھی کہ وہ کسی کھمبے کو ٹکٹ دیتے تو جیت جاتا اور سچ مچ میں اس دور کے کئی کھمبوں کو میں بھی جانتا ہوں جنہوں نے سوائے ایم این اے یا ایم پی اے بننے کے کچھ نہیں کیا لیکن اس وقت عمران خان مشاورت سے ٹکٹیں بانٹ رہے ہیں مگر دوسری طرف تو اور ہی حکمت ہے کہ الیکشن کا بائی کاٹ بھی نہیں اور کسی کو ٹکٹ ہی نہیں ملا خیر ہم بات کر رہے تھے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی طرف سے درخواستیں دی جا رہی ہیں کہ نگران حکومتوں‘ وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیوں کی بحالی کے لئے رٹ کی گئی ہے بس یہیں سے احساس ہوتا ہے کہ اسمبلیاں توڑ کر بلنڈر کیا گیا تھا۔ طاقت میں رہتے تو منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پی ڈی ایم اور خاص طور پر ن لیگ نے حکومت میں آ کر غلطی کی اور پی ٹی آئی نے حکومت سے نکل کر ویسی ہی غلطی کی۔ واپسی کی اتنی بھی کیا جلدی تھی۔مجھے یاد ہے کہ فواد چودھری ان دنوں یہ کہہ رہے تھے کہ شاید پی ڈی ایم کی حکومت صرف 48گھنٹے کی تھی مگر اس کے بعد وقت گزرتا گیا اور اب بھی گزر رہا ہے۔مزید غلطی یہ کہ ہر کام خان صاحب نے جنرل باجوہ پر ڈال دیا۔ خان صاحب نے کئی بیانیے اکٹھے کر دیے اور ان کی مقبولیت کے باعث سارے بیانیے چل تو گئے مگر سمت کا کوئی تعین نہ تھا خان صاحب کی خوش قسمتی یہ کہ ن لیگ کی کارکردگی منفی سطح پر چلی گئی یعنی وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے آئے اور مہنگائی ان کے گلے پڑ گئی سب سے زیادہ نقصان تو ن لیگ کا ہی ہوا۔زرداری صاحب نے تو بڑی آسانی سے کہہ دیا کہ وہ تو حکومت میں نہیں صرف اتحادی ہے ان کا بیٹا بلاول تو بھارت جا کر کانفرنس بھی اٹینڈ کرے گا۔ اس وقت ٹانگے کے پیچھے گھوڑے کو جوتنے کی کوشش ہو رہی ہے ایک بات سراج الحق نے بہت بامعنی کی ہے کہ اب تو شاید بلدیاتی الیکشن ہی ہونگے ۔یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا۔کہ بلدیاتی الیکشن کون کرایا کرتے ہیں ان سیاسی جماعتوں کو تو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ اقتدار نیچے نمائندوں تک پہنچائیں ۔ پھر آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ انتہائی خطرناک چال بھی چلی جا رہی ہے کہ جو آئین کی روح نکال دے گی ایک نئی اصطلاح آ گئی ہے توہین پارلیمنٹ 3ججوں کو استحقاق کمیٹی میں بلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔گویا الٹی گنگا بہانے کی تیاری ہو رہی ہے خدانخواستہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کا محاسبہ کوئی بھی نہیں کر سکتے گا بہرحال ایک تکلیف دہ پہلو سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم بھی ہے کہ جس باعث کسی کو شہ ملی ہے ۔ آخ میں ذرا تفنن طبع کا سامان بھی ہو جائے کہ ایک زبردست خبر 92نیوز میں پڑھی کہ مارلن سوائٹ دنیا کی ذھین ترین خاتون ہیں جنہوں نے مونٹریال پر پیچیدہ ترین پہیلی حل کی ہم سوچتے رہ گئے کہ ہمارے ہاں تو عورت کو پہیلی سمجھا جاتا ہے کہ جو آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی وہ مشہور لطیفہ بھی تو آپ نے سن رکھا ہو گا کہ چراغ سے پیدا ہونے والے جن نے عورت کے بارے کچھ بتانے کی بجائے بحرئے اوقیانوس پر ڈبل پل بنانا قبول کر لیا تھا دوسری بات یہ کہ مرد کیسے ہضم کر لیں گے کہ عورت ذھین ترین ہو سکتی ہے ویسے تو عورت مرد کو تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے۔ دوسری خبر بھارتی ماڈل عرفی کی ہے کہ جسے نازیبا کپڑوں کے باعث ہوٹل میں داخلے سے روک دیا گیا پہلے تو آپ یہ سوچ لیں کہ وہ کپڑے جو بھارتی معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں کیسے نازیبا ہوں گے دوسری بات زیادہ مزیدار ہے کہ عرفی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ہم واقعتاً اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ شاید موصوفہ سے کوئی پوچھتا کہ یہ تو بائیسویں صدی کے کپڑے ہیں۔معلوم نہیں کہ عرفی نے اس بندش کے جواب میں احتجاج کس طرح کیا ہو گا بس آپ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔الماس شبی کا ایک شعر: راستہ ختم ہو گیا ورنہ وہ مرے ساتھ چلنے والا تھا