’’سارے سکھی گھرانے ایک جیسے ہوتے ہیں، مگر ہر دکھی گھرانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔‘‘ یہ عظیم روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول اینا کریننا (Anna Karenina)کی پہلی سطر ہے۔ یہ ناول پہلی بار 1878 میں شائع ہوا، اس اعتبار سے اسے ایک سو پینتالیس( 145)سال ہوچکے ہیں۔ دنیا ئے فکشن کی چند کتابیں ہی ایسی ہوں گی جن کی پہلی سطر اس قدر مشہور ہوئی ۔ یہ سطر بے شمار جگہوں پر بطور حوالہ استعمال ہوئی ۔ اینا کریننا کی صرف پہلی سطر ہی نہیں بلکہ مکمل ناول بھی شاندار اور ناقابل فراموش ہے۔ روسی کلاسیک ادب میں غیر معمولی فکشن لکھا گیا ہے۔ تاریخ انسانی کے کئی بڑے منفرد، نادر اور عظیم دماغ یہ ادب تخلیق کرتے رہے۔ ٹالسٹائی، دوستئوفسکی، چیخوف،میکسم گورکی، پشکن، لرمنتوف، ترگنیف، شولوخوف ، پاسترناک جیسے بڑے ناموں سے سجی یہ فہرست طویل ہوتی جاتی ہے۔ دنیا ئے ادب کے بے شمار نقاد چند ناولوں کے بڑے مداح ہیں اور انہیں تاریخ انسانی کے عظیم ناول قرار دیتے ہیں، ان میں ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس‘‘ اور دوستوئفسکی کا ’’برادرز کرامازوف ‘‘سرفہرست ہیں۔ اسی ترجیحی لسٹ میں ٹالسٹائی کا’’ اینا کریننا‘‘ اور دوستئوفسکی کا ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ بھی شامل ہے۔ ان میںاینا کریننا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ ایک خالص محبت کی کہانی ہے(True Love)۔ میں ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس (جنگ اور امن )کا زبردست مداح ہوں، دوستوئفسکی کے سحرسے قطعی انکار نہیں مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ٹالسٹائی کا اینا کریننا ایک چیزے دیگر ہے، بہت مختلف، منفرد اور قیامت خیز ۔اسے پڑھنا ایک شاندار تجربہ ہے۔ قاری اسے زندگی بھر بھول نہیں سکتا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس ناول کا بہت عمدہ ترجمہ حال ہی میں منفرد اشاعتی ادارے بک کارنر، جہلم نے شائع کیا ہے۔اس کا ترجمہ محترم تقی حیدر نے کیا جبکہ اس کی تسہیل کے حوالے سے مزید کام اطہر رسول حیدر نے کیا۔ ساڑھے سات سو کے لگ بھگ (766)صفحات کی یہ کتاب چند دن قبل شائع ہوئی۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ ناول دو مختلف ٹائٹلز کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ دراصل اس کا ایک کلاسیک ٹائٹل طویل عرصے سے چھپتا آیا ہے اور بہت مشہور ہوا، جبکہ اس ناول پر بننے والی ایک فلم کی تصویر بھی بہت مقبول اور مشہور ہوئی۔ بک کارنر نے فیس بک پر دونوں ٹائٹل لگا کر قارئین سے رائے لی کہ کون سا شائع ہونا چاہیے۔ اتفاق سے ووٹنگ ٹائی ہوگئی۔ بک کارنر کے دونوں بھائی گگن شاہد، امر شاہد من موجی اور ادب دوست ہیں۔ انہوں نے دونوں ٹائٹل کے ساتھ ناول چھا پ دیا۔ جس کا جی چاہے ، اپنی پسند کے ٹائٹل والی کتاب خرید لے۔ روسی ناول پڑھتے ہوئے ان کے کرداروں کے ناموں کو سمجھتے اور یاد کرتے تھوڑی سی دقت ہوتی ہے۔وار اینڈ پیس چونکہ بہت پھیلا ہوا ناول ہے جس میں بے شمار کردار ہیں، انہیں ذہن میں رکھنا نسبتاً زیادہ مشکل ہے، مگر جب پلاٹ سمجھ آ جائے اور کردار ذہن میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں پھر ناول پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اینا کریننا پڑھنا نسبتاً زیادہ آسان ہے، اس کے کردار’’ وار اینڈ پیس ‘‘سے بہت کم ہیں اور چند مرکزی کرداروں کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ میرا قطعی ارادہ نہیں کہ اس ناول کی کہانی اس کالم میں پیش کروں ، اس کے بجائے میں ناول پڑھنے اور اپنی ذاتی لائبریری کا حصہ بنانے کا مشورہ دوں گا۔ عظیم ناول ایک بار نہیں پڑھے جاتے۔ زندگی کے مختلف ادوار اورگرم سرد لمحات میں انہیں بار بار پڑھنا اور مسرت کشید کرنی چاہیے۔ ناول کا مرکزی کردار جیسا کہ نام سے اندازہ ہوتا ہے ، اینا کریننا ہے، یہ اسی کی کہانی ہے، محبت، دھوکہ، عشق اور نجانے کیا کیا۔ اینا دراصل ناول کے ایک اور اہم کردار جس کا پہلے صفحے پر تذکرہ ہے، اوبلونسکی گھرانے کے پرنس استیپان یا سٹیفن(Stepan) ابلونسکی کی بہن ہے۔ کریننا اس کے خاوند کے نام کی نسبت سے ساتھ لگا ہے، الیکسی کاریننا جو ایک اہم اور بڑا افسر ہے اور اینا سے عمر میں بیس سال بڑا ہے۔ کہانی کا دوسرا اہم ترین کردارکائونٹ ورونسکی ہے، ایک دلیرپراعتماد کیولری افسر جس کی محبت میں اینا کریننا گرفتار ہوجاتی ہے۔ کہانی میں اور بھی کردار ہیں، ایک متوازی کہانی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اس ناول میں بہت کچھ ہے، انسانی جذبات، احساسات، شخصی تضادات۔ اس زمانے کے روسی معاشرے کی بہت عمدہ تصویر بھی ملتی ہے۔ ٹالسٹائی کے عہد اور بعد کے نامور لوگوں نے دل کھول کر اینا کریننا کی ستائش کی ہے۔ دوستوئفسکی کو اینا کریننا میں انسانی روح کا نہایت عمدہ نفسیاتی تجزیہ اور فن کارنہ تصویر کشی کی بے مثال حقیقت نگاری نظر آئی۔دوستوئفسکی نے لکھا تھا:’’فن کارانہ تخلیق کی حیثیت سے اینا کریننا بے مثال کتاب ہے، اس ناول میں انسان دوستی کا ایک پیغام ہے جس پر یورپ نے ہنوز توجہ نہیں دی ہے، حالانکہ اہل مغرب کو اس کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ روسی ناول نگار ایوان گونچا روف نے اس ناول پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا،’’یہ اپنی قسم کی پہلی بے نظیر چیز ہے، ہم مصنفوں میں سے کون اس کی برابری کر سکتا ہے؟‘‘نابوکوف نے لکھا :’’اینا کریننا عالمی ادب کی یادگار عشقیہ داستانوں میں سے ایک ہے ۔ ‘‘ای ایم فورسٹر نے ٹالسٹائی کے بارے میں یہ تبصرہ کیا، ’’کوئی انگریزی ناول نگار اتنا عظیم نہیں جتنا ٹالسٹائی۔ یعنی کسی نے انسانی زندگی کی گھریلو اور سورمائی جہت ، دونوں کی ایسی مکمل تصویر نہیں دکھائی۔ ‘‘ بک کارنر نے اس ناول کی ابتدا ہی میں شکیل عادل زادہ کا دو صفحات میں لکھا ٹالسٹائی کا مختصر خاکہ بھی شائع کیا ہے۔ شکیل بھائی نے سب رنگ کے ایک شمارے کے لئے اپنے مخصوص انداز میں یہ لکھا تھا۔ اس کا آخری پیرہ نقل کرنا چاہوں گا،’’ٹالسٹائی ایک سچے اور کھرے تخلیق کار تھے۔ ناول اینا کریننا یا جنگ اور امن ہی نہیں، ان کے دیگر قلمی کام بھی کارناموں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا سارا تخلیقی کام ، مقالات اور خطوط پر مشتمل نوے جلدوں کے مساوی ہے۔ انہوں نے اپنی ساری جاگیر اور دولت خاندان کے افراد ، اپنے مزارعوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی تھی۔ خود کو بالکلیہ قلم کاری اور اپنے ’’ازم‘‘کی ترویج و توسیع کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ٹالسٹائی کی تحریروں نے نسلیں متاثر کی ہیں۔ گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور بے شمار ناموروں نے ٹالسٹائی کی فکر سے اکتساب کیا ہے۔ وہ بہت پرنویس ، پرخیال ادیب تھے۔ خود ان کا اصرار تھا انہیں محض قصہ گو کی حیثیت سے شناخت نہ کیا جائے۔ سات سال زندگی اور مل جاتی تو اپنے خوابوں کی تعبیر 1917کا انقلاب بھی دیکھ لیتے۔ 1910 میں ٹالسٹائی کا وقت ختم ہوگیا، لیکن وقت کہاں ختم ہوا، ٹالسٹائی تو بہت زندہ ہیں۔ اتنا منفرد ، اتنا کثیر اور فکر انگیز ترکہ چھوڑ جانے والا کیسے ختم ہوسکتا ہے۔‘‘