سپریم جوڈیشری نے اپنا وعدہ پورا کر دیا کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات وقت پر ہوں گے لیکن اس سوال کا جواب دینا کہ کیا وہ شفاف ہوں گے تھوڑا مشکل ہے۔ اس وقت ملک بھر میں انتخابی ماحول بنانے کے لئے کاغذات نامزدگی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، عوامی جلسے جلسوں کا ماحول تاہم گرم نہیں۔ تاہم خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے ہی ورکرز کنونشن منعقد کر کے سیاسی ماحول تیار کر کے الیکشن کی تیاری شروع کر دی تھی اور انہیں اپنے کارکنوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل بھی ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی ایم کیو ایم پاکستان کے لیے بھی ماحول موجود ہے، جو سدا بہار جماعتیں ہیں جو انتخابی ماحول کے بغیر سیاسی ماحول بناتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اے این پی فور امن کے سلوگن کے ساتھ سرگرم ہوچکی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا کیا بنے گا؟ جس نے گھونسلا بنایا تھا وہ تو بکھر گیا ہے۔ بادی النظر پی ٹی آئی کو اس وقت ایم کیو ایم کی طرح 2018 کے انتخابی صورتحال کا سامنا ہے، یعنی فرنٹ لائن قیادت غائب و منتشر ، اور جلسے اور تقاریر کرنے والے رہنماؤں کے اجتماعات میں عدم موجودگی اور محکم فیصلہ سازی کا فقدان نظر آرہا ہے۔ معروف سیاستدان جو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتے تھے اور جنہیں ان کے سیاسی مخالفین اے ٹی ایم کہتے تھے اب وہ نہیں رہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے انتخابات بہت مہنگے ہوتے ہیں، اور انتخابی اخراجات تو متوسط اور قدر خوشحال طبقے کے لیے بھی ناقابل برداشت ہو چکے ۔ کارنر میٹنگ ایک معمول کا معاملہ ہے، جسے سنبھالنا مشکل نہیں، چند ہزار روپے میں باآسانی منعقد ہوجاتا ہے لیکن پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو بہرحال ا میدان میں کمر کس کے اترنا تو ہوگا۔ آئیے تصور کریں کہ بریانی، قورمہ اور روغنی نان کا بھی اہتمام کیا جائے گا لیکن مقابلہ کا مزہ نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ میں کھانے کے مقابلے کی نہیں بلکہ سیاسی دنگل کی بات کر رہا ہوں۔ بد قسمتی سے مملکت کا ہر الیکشن کسی نہ کسی پارٹی کے ہاتھ پیروں کو باندھنے سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ صحیح یا غلط، سب کی نظریں اس پر ہیں کہ عمران خان کس کا سامنا کریں گے، اداروں کا یا پھر سیاسی جماعتو ں کا اگر کوئی صاف و شفاف انتخابات درحقیقت چاہتا ہے۔ قیاس ہے کہ الیکشن میں عمران خان نظر نہیں آئیں گے۔ وہ خود امیدواروں کو ٹکٹ بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ان کا ذاتی طور پرامیدواروں کے انٹرویوکے بعد پی ٹی آئی کے ٹکٹ جاری کرنے کا منصوبہ قابل عمل نہیں رہا، ان کا اپنامستقبل تاریک بنا ہواہے، اس کا موازنہ لوڈ شیڈنگ سے کیا جا سکتا ہے، یا پھر کبھی غم کبھی خوشی سے ، لیکن انہیں یہ گمان ہے کہ پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی پر عمل ہو گا۔ لیکن فی الحال، پلان بی تو کیا سی کا بھی کوئی نام نشان نہیں ہے۔ اس طرح خواہشات کا مسکن وہ ووٹر اور حامی ہیں جو کھمبے کو بھی ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کو شیڈول دینا پڑا، اب ان کا بھی واپس جانا ممکن نہیں یعنی اب پی ٹی آئی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں رہا کہ ان کی جماعت کے بانی جیل سے باہر نکال کر کوئی بھی فیصلے کرسکیں۔ لیکن اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات نہ صرف کسی سیاسی جماعت کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے بلکہ پاکستان کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے۔ بیورو کریسی کی غیر جانبداری کو ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ انہیں عوام کو جواب دینے کی ضرورت نہیں پڑتی، اس لیے وہ اس بات کا دباؤ محسوس نہیں کرتے کہ آگے کیا ہوسکتا ہے یعنی ان کے ساتھ ٹرانسفر کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ بیوروکریٹس کی تقرری بھی کسی نہ کسی سیاسی رجحان کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کی اصل باگ ڈور ان کے ہی ہاتھ میں تھی اور ہے۔ سپریم جوڈیشری کے لیے پولنگ سٹیشن کی سطح تک نگرانی کرنا ممکن نہیں لیکن الیکشن کمیشن جو سیاسی پنڈتوں کے مطابق شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے سے پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے، اسے ہر چیز کا صاف و شفاف انتظام کرنا مشکل ہو گا۔ ووٹرز کو بہت اچھے انتخابی منشور دیکھنے کو ملیں گے اور ایک بار پھر سنہرے خواب دکھائے جائیں گے۔ مخالفین پر تیر و نیزے برسائے جائیں گے، جذبات و احساسات سے کھیلا جائے گا، لیکن جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی حکومت چھڑی گھما کر فوراََ ملکی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اشارے تشویش کا باعث ہیں۔ بجلی اور گیس سمیت اشیا پر یقینی طور پر ٹیکس لگاتے رہیں گے، گھات لگائے جائیں گے اور ملک دشمن اپنی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی کر کے دہشت گردی جاری رکھے گا۔ سیکورٹی چیلنج اپنے آپ میں ایک اہم چیلنج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں نہ حکومت پرامن طریقے سے چل سکے گی اور نہ ہی مون پریڈ۔ دو تہائی اکثریت حاصل کر لینا تو شاید کسی سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن نہ ہو۔ غالب امکان ہے کہ سیاسی عدم استحکام کا یہ سلسلہ انتخابات کے بعد بھی جاری رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر حالات جوں کے توں رہے تو کیا عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد کسی اور کی حکومت بنانا جمہوری اقدام ہو گا؟ کیا یہ آئینی ہوگا کہ جس جماعت کے پاس اکثریت نہ ہو وہ بار بار چھوٹی جماعتوں کو ضم کرکے حکومت بناتا رہے اور پھر یہ سب آئینی بھی ہو اور جمہوری بھی اور ایسا اخلاقی جواز پیش کرنے کے لیے بدترین سیاسی مخالفین اقتدار کے نام پر ملک بچانے کے لیے اتحادی بن جائیں اور پھر یہی اتحاد ملک کو لوٹنے کے بعد کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ بندھ جائیں۔ اقتدار کی لذتوں کی سیاست مہینوں کریں۔ آج کی طرح جس طرح چند مہینوں سے الزامات کی بو چھاڑ کر رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں، لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کل جو ہم ساتھ تھے وہ اچھا نہیں تھا، لیکن اب جو ہوں گے وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ وہ درست سمت پر ڈالیں گے لیکن عوام کا کیا ہوگا؟ ان کے لیے جو کل زندہ تھا آج بھی زندہ رہے گا اور کل بھی زندہ رہے گا۔ جس نے کل کہا تھا کہ مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کریں گے، دو دہائیوں تک حکومت کرنے کے بعد بھی وہ کہہ رہے ہیں جو پہلے نہیں کر سکے تھے۔ عوام مان لیں کہ وہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن چکے ہیں جنہیں جب چاہیں لاٹھی سے ہانکا جا سکتا ہے۔