عظیم دانشور نے کہا تھا :مشکل سے مشکل حالات میں بھی دن24 گھنٹے کا ہی ہوتا ہے۔ وقت ٹھہرتا نہیں، گزر جاتا ہے۔لہذا یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔اس وقت پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ۔سیاسی حالات ایک طرف،سیلاب نے 61سالہ ریکارڈ توڑ دیئے۔قوم کا خون پسینہ لوٹنے والے سیاستدان اور حکمران بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ۔مشکل وقت گزر جائے گا،مگر بے ضمیر،مفاد پرست ،نیک و بد میں لکیر کھینچی جائے گی ۔واضح لکیر۔یہ 1980ء نہیں ،2022 ہے ۔جدید ٹیکنالوجی ماضی مٹنے نہیں دیتی ۔سوشل میڈیاایک برس قبل کی یاد سامنے لے آتا ہے ۔ سیلاب میں کون کون مدد کو آیا ،کس نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ،متاثرین کو لائن میں کھڑے کر کے 50پچاس روپے تھمانے کی کوئی تصویر بناتا رہا ۔کون سانپ بن کر خزانے پر بیٹھا رہا ۔ذخیرہ اندوزی کون کرتا رہا۔مشکل وقت میں سیاست سیاست کون کھیلتا رہا ۔سب صاف نظر آ رہا ۔مخفی کچھ نہیں ۔جی ہاں ایک ذرہ بھی ۔ مخیر حضرات ،رمضان میں منافع کمانے والے تاجر کہاں ہیں ؟وزراء ،سنیٹرز،ایم این ایز اور ایم پی ایز کدھر۔ملک کے 30بڑے خاندان مشکل کی گھڑی میں غائب ۔جوڑ توڑ کے ماہر بھی گم ۔کئی سوالات کا ایک ہی جواب ۔سب مطلب کے پجاری ۔ اسی بنا پر میں اپنے اوورسیز پاکستانیوں سے التجا کر رہا ہوں ۔پاکستان کے کل 154 اضلاع ہیں ۔جہاںپنجاب سے تقریباً 45 فیصد یعنی 54 لاکھ 60 ہزار987 ، خیبر پختونخوا سے 32 لاکھ 75 ہزار 904، سندھ سے 10 لاکھ 28 ہزار 582، بلوچستان سے ایک لاکھ 16 ہزار617، کشمیر سے 6 لاکھ 90 ہزار968 جبکہ گلگت بلتستان سے 24 ہزار 223 افراد بیرون ملک گئے۔ 55 لاکھ سے زائد صرف سعودی عرب میں ۔ ان سب سے معذرت ۔میں آپ سب سے شرمندہ ہوں ۔ہم نے آپ سے ووٹ کا حق چھینا ۔آپ کی جائیدادوں پر قبضہ کیا ۔ائیر پورٹ پر آپ سے ناروا سلوک کیا ۔پاکستان میں تو وڈیرے ،امیر ،ارب پتی اورسردار پہلے ہی غریب عوام پر مسلط ہیں ۔وہی دو تین سو خاندان ہر بار الیکشن میں آتے ہیں ۔اور جیت کر اگلے پانچ برس سب کا خون نچوڑتے ہیں ۔اب ہم آپ پر بھی اوورسیز ارب پتی اور کروڑ پتی افراد کو مسلط کریں گے ۔جو بھی جس پارٹی کو زیادہ فنڈ دے گا ،وہ اوورسیز کی مخصوص نشست پر ایم این اے ،ایم پی اے اور سنیٹرز بنے گا ۔جی ہاں صرف وہی ،باقی لالی پاپ ۔یہاں کچھ نہیں بدلے گا ،صرف اسی کا خاندان مضبوط ہو گا ۔آپ سب کے مسائل ویسے ہی رہیں گے ۔اس لیے پیشگی معذرت۔75برسوں میں بھی سیاستدانوں کے وارے نیارے ہوئے ۔یہ امیر سے امیر تر اور غریب غربت کی پستیوں میں دھنستا گیا۔بشیر بدرنے کہا تھا : اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے ملک بھرسے ایک ہی آواز آ رہی ۔کالا باغ ڈیم ،کالا باغ ڈیم۔اس وقت ملک پر 15سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے ۔اس سیلاب میں انھیں اپنی انا کو دفن کرنا چاہیے ۔اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو اس قدر تباہی نہ ہوتی ۔آپ ڈیم کا نام ’’بھٹو،شریف ،مفتی اور خان ڈیم‘‘ رکھ لیں ۔لیکن خدا را اسے بننے دیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور اے حبیبؐ! آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘ یہ مشکل وقت گزر جائے گا ۔صبر کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے لازمی پھل ملے گا ۔میں ایک بار پھر اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں ۔اگر آپ تذبذب کا شکا رہیں کہ آپ کے فنڈزدرست جگہ پر خرچ ہوں گے یا نہیں۔ تو آپ حکومت کی بجائے ،الخدمت فاونڈیشن،دارالعلوم کراچی ،ہیلپنگ ہینڈ اور وفاق المدارس کو فنڈز بھیجیں ،جو آپ کاایک ایک پیسہ درست جگہ پر خرچ کریں گے ۔ ہر صوبے کے اوورسیز اپنے صوبے کے لوگوں کی مدد کریں ۔اگر ہم اس موقع پر ایک قوم بن گئے تو متاثرین چند دنوں میںپائوں پر کھڑا ہوسکتے ہیں ۔ورنہ تباہی ہی تباہی ۔مفلسی اور بیروزگاری۔ چاروں صوبوں میں فوج تعینات، دل دہلادینے والے مناظردیکھنے کو مل رہے ۔ دریائے سوات نے قیامت ڈھادی ۔اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ٹک سکا، اسکولز، پل، ہوٹلز، عمارتیں سب بہا کر لے گیا، سوات کے علاقوں میں عمارتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں، کالام میں ایک ہوٹل چند سیکنڈز کے اندر پانی کی نذر ہوگیا۔ لوئر کوہستان میں بھی سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی۔پتھر سے پتھر دل کو موم کرنے والا منظر ،5دوستوں کا ہے ۔ تین گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے، مقامی افراد نے رسیوں کے ذریعہ انہیں نکالنے کی کوشش کی مگر وہ تیز موجوں کی نذر ہوگئے۔اگر کوئی اور ملک ہوتا تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے انھیں ریسکیو کیا جا سکتا تھا ۔تین گھٹنے میں پشاور سے ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا تھا ۔مگر سب تماشائی بنے رہے۔ بلوچستان کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہے، فضائی، زمینی اور ریلوے نیٹ ورکس معطل ، دیگر صوبوں سے جوڑنے والے تمام ہائی ویز متاثر ہوچکے ،مگر سیاسی قیادت کا حال یہ ہے کہ ملک میں مقدمات کی سیاست تیز ہوگئی ہے ۔ اوورسیز پاکستان سالانہ 30ارب ڈالر ملک میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔اب کی بار بھی دل کھو ل کر مظلوموں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں ۔خدارا! اس بات کو بھول جائیں کہ موجودہ حکومت نے آپ سے ووٹ کا حق کیوں چھینا ۔اگر کوئی اس مصیبت میں بچ گیا تو گلے شکوے کرنے کا بہت وقت ہے ،لہٰذا ماں دھرتی تمھیں پکار رہی ہے ۔ خدا را آگے بڑھو،آگے بڑھو۔