محفوظ کیا گیا فیصلہ آخر کار سْنا دیا گیا اور اس فیصلے سے بلا شبہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو گیا۔ ناخداؤں کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے یہ فیصلہ سْن کر۔ وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تین رکنی بینچ کو نہیں مانتے آپ فیصلہ مانیں یا نہ مانیں فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہو گا ورنہ توہین عدالت ہوگی۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے عدالت عالیہ کے خلاف سخت الفاظ کہے کہ ایک بار پھر چار اپریل کو عدل و انصاف کا قتل ہوا۔ حکومت بھٹو قتل کیس پر صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھے گی۔ کیا یہ سمجھتے ہیں عوام بھول چکی ہے کہ جب بھٹو صاحب کی پھانسی کو پھانسی دی گئی تو یہ لوگ آمر کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بلاول بھٹو کہتا ہے کہ سپریم کورٹ میں آمریت تسلیم نہیں۔ تختِ لاہور کی لڑائی ملک کو لے ڈوبے گی۔ ایسے حالات میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگ سکتا ہے۔ واہ ایک جمہوریت پسند خاندان کا نواسہ جس کے نانا جمہوریت اور عوام کی خاطر پھانسی پر ناحق جھول گئے وہ یہ کہہ رہا ہے اندازہ کر لیجیے کرسی کا نشہ کتنا سر چڑھ کے بولتا ہے۔ مریم نواز کہتی ہیں سچ کہنے پر پہلے بھی نا اہلیاں بھگتیں اب بھی بھگت لیں گے۔ لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ لاڈلی تو آپ بھی ہیں۔ بات کرنے کی کوئی تہذیب ہوتی جس سے آپ واقف نہیں۔ جس کے بارے میں آپ باتیں کر رہی ہیں اس کے عہدے کا تقدس ہوتا ہے۔ کرسیاں اور حکومتیں تو آنی جانی چیزیں ہیں۔ احترام اس کرسی کا ہوتا ہے جس پر چیف جسٹس، چیف آرمی سٹاف بیٹھے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم صدر اور دیگر وزرا کی کرسیوں کی عزت ہوتی ہے۔ پارلیمان کی بھی ایک تمیز اور تہذیب ہوتی ہے۔ ریاست اور حکومت میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ریاست یعنی ملک وہیں رہتا ہے۔ حکومتوں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اب ایک خوانچہ فروش بھی جسے ہم کبھی ایویں ہی سمجھتے تھے اپنے ووٹ کی عزت کو پہچاننے لگا ہے۔ پارلیمان میں عورتوں کی شمولیت اسی لیے ہوتی ہے کہ تہذیب و تمیز ملحوظ رہے۔ ویسے بھی عورتیں آدھی آبادی ہیں۔ ان دنوں دوبارہ سے جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کا بہت ذکر چل رہا ہے۔ ذرا اس کیس کا بھی اعادہ کرلیتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے مربی بھی تھے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب انہوں نے ’’پانی اور صفائی‘‘ کے محکمے کے چند آفیسر جن کی FIR کٹے بغیر وزیر اعظم کے زبانی حکم پر ہتھ کڑیاں لگا دی گئیں پر از خود نوٹس لیا اور جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ یہ اختلافات مزید گہرے ہوتے چلے گئے جب جسٹس سجاد نے Law Terrorist Anti کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیسہ عدالت کے موجودہ ڈھانچے پر بہتر طریقے سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن نواز اور اس کی حکومت متوازی عدالت کے ذریعے نون لیگ کے چند سپیشل ججز پر عنایت کرنا چاہتی تھی۔ لہذا سپیشل کورٹس بنائے گئے۔ 28 اگست 1997 کو جسٹس سجاد نے سپریم کورٹ کا وقار بلند کرنے کے لیے پانچ ججز کا بنچ بنا دیا جن میں سے تین ہائی کورٹ کے ججز تھے۔ جس کا مقصد انصاف پر مبنی فیصلوں کا حصول تھا اور وزیر اعظم کے لیے لازم تھا کہ اگر اسے ان فیصلوں پر اعتراض ہو تو حلقہ عدالت میں رہتے ہوئے تحریری طور وجوہات بیان کرے۔ لیکن میاں نواز شریف نے اس وقت بھی ان دو ججز کی مخالفت کی کیونکہ ان میں سے ایک جج نے ان کی صنعتی حکمرانی کے خلاف کرپشن کے کیسز بنائے جبکہ دوسرے جج نے فیڈرل لا سیکرٹری کے طور پر بے نظیر کی حکومت میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ ایک بار پھر نواز شریف نے ذاتی اور خاندانی مفادات کو ملک کے مفادات پر ترجیح دی۔ اس سے پہلے نواز شریف نے پنجاب کی وزارت پرویز الٰہی کو دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وٹو کے ساتھ تلخ تجربات کی وجہ سے انہوں نے پنجاب کو اپنا محکوم بناتے ہو یہ وزارت اپنے چھوٹے بھائی کو دان کر دی۔ پانی اور صفائی والے کیس میں نواز شریف کوئی تحریری ثبوت نہ دے سکے اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم کرنے کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔ نواز شریف نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جسٹس سجاد اور ان کے مابین کھلم کھلا جنگ ہے۔ آج بھی وہی کردار موجودہ چیف جسٹس کے فیصلے کے خلاف نظر آ تے ہیں۔ خواجہ آصف، رفیق تارڑ، شہباز شریف اس وقت کے وہ مرکزی کردار تھے جو بریانی قیمے والے نان اور سوٹ کیسز کو لانے لے جانے کے لیے سہولت کار تھے۔ کوئٹہ اور پشاور بنچ کے ججز نے جتنا فائدہ خود لینا تھاجونقصان ملک کو پہچانا تھا وہ پہنچایا۔اب رجیم چینج کے بعد اسی پرانی کرپشن کے کیسز میں لتھڑا ہوا گناہ گار گروہ لا کر پاکستان کی عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ یہ سب کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے کہ اوپر ایک خدا بھی ہے۔ 28نومبر 1977کو جب سپریم کورٹ کی پروسیڈنگز ہو رہی تھیں تو نون لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی طرف سے ایک جتھے نے سپریم کورٹ کی عمار ت پر ہلہ بول دیا۔آج بھی نواز شریف اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لندن سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ تین رکنی بنچ ہمیں منظور نہیں۔ مملکت خدادد آج شدید خطرے میں ہے۔ آئین کے بغیر ریاست نہیں ہوتی۔ پہلے دن ہی سے آئین کی حفاظت صبر آزما رہی ہے۔ 1952میں،1962میں اور 1973 کے آئین میں ترمیمات کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ بہت سے آئین اور ان میں بیسیوں ترامیم پاکستان کے سیاسی عدمِ استحکام کی کھلی نشانی ہے۔ ہم عوام ہاتھ جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواز شریف صاحب ہْن جان دیو۔ نئیں تے واپس آؤ عوام پْھلاں نال دھرتی سجائے گی۔