صد حیف سب سحاب بھی ثابت ہوئے سراب پلکوں پر دھل کے آ گئے سارے ہمارے خواب ہم کتنے خوش گمان تھے یہ آخرش کھلا گلدان میں تھے آپ کے سب کاغذی گلاب صرف ایک شعر اور دیکھ لیجیئے۔ آتے ہیں کس شمار میں ہم سے زمین زاد‘ اترے ہیں آسمان سے بس آپ ہی جناب۔ آج ذرا لطیف سا کالم چلے گا کہ منہ کا ذائقہ ایک سا اچھا نہیں لگتا۔ ابتدا میں کرکٹ کی بات صرف اتنی سی ہے کہ برطانیہ کی ٹیم اچھا کھیلی اور سیرز جیت گئی اور یہ بھی خوبصورت اتفاق ہوا کہ لوگوں کی دلچسپی آخری میچ تک برقرار رہی۔ شاید ضروری بھی تھا۔ کیاہماری ٹیم ایک سو ساٹھ یا ایک سو ستر کی ٹیم ہے کیاہم اس سے زیادہ سکور ٹونٹی ٹونٹی میں نہیں کرسکتے اور نہ چیز کرسکتے ہیں؟۔ کچھ سفارشی کھلاڑی ہوں گے تو یہی کچھ ہوگا۔ اب کہتے رہیں کہ مہمانوں کو خوش کر کے بھیجنا تھا: ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔‘‘ اب کچھ بات ادب کے حوالے سے ہو جائے کہ مقطع میں آن پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ الفاظ کے استعمال میں لاپروائی ہو ہی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ بگڑے ہوئے الفاظ رواج بھی پا جاتے ہیں۔ گفتگو ہورہی تھی قبلہ اقتدار جاوید سے کہ جو نظم میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ بات یہ تھی کہ کیا بات اور مات کا قافیہ نعت بھی ہو سکتا ہے۔میں نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ ہماری محترم شاعرہ رخشندہ نوید نے مطلع میں یہی دو قافیے بات اور نعت استعمال کیے۔ ٹی وی پروڈیوسر سے میں نے کہا کہ یہ قافیے درست نہیں۔ یہ بات احمد ندیم قاسمی کے دفتر میں چل نکلی اور احمد ندیم قاسمی نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب اس میں کیا حرج ہے۔ میں ان کی دریا دلی یا نرم دلی جانتا تھا۔ میں نے کہا قاسمی صاحب تو پھر ہم اسے آپ کی طرف سے سند سمجھیں۔ وہ مسکرائے اور بولے ہرگز نہیں۔ شاہ صاحب آپ بہت سخت ہیں۔ ایسی ادبی باتیں چلتی رہی تھیں۔ ایک مرتبہ مصافہ کا تذکرہ چلا تو میں نے کہی ’’سر! یہ لفظ تو مصافحہ ہے۔ مصافہ تو صف آرا ہوتا ہے یعنی دو کی لڑائی۔ وہاں احمد فراز بھی موجود تھے اور وہ بہت خوش ہوئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے لفظ کی صحت شاعر کے لیے تو ازحد ضروری ہے وگرنہ مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔اب کے یہ ہوا کہ اقتدار جاوید نے اپنی غزل لگائی تو آغاز ہی میں لکھ دیا۔ برادرم سعد اللہ شاہ سے معذرت کے ساتھ‘ مطلع آف دیکھ لیں: کسی کے دل کے گوشے میں ہماری یاد ہو گی اگر ہو گی نہیں اب تو ہمارے بعد ہوگی غزل تو یقینا طرحدار تھی مگر مطلع میں وہی مسئلہ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ یہ غلطی بے شمار لوگوں نے کی ہے۔ میرے محبوب شاعر نے بھی اپنی نظم میں۔ وہ نظم میری بہت پیاری یادوں میں ہے کہ جب منیر نیازی میرے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں مجھے ملنے آئے تو ہم یونیورسٹی کے سامنے ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے۔ تب نیازی صاحب تھری پیس پہنتے تھے۔ فنگر فش اور چائے اور اس طلسماتی فضا میں منیر نیازی کی گھبمبیر آواز میں نظم: ستارے جو دمکتے ہیں کسی کی چشم و حیراں میں ملاقاتیں جو ہوئی ہیں جمال ابر و باراں میں یہ نا آباد وقتوں میں دل ناشاد میں ہوگی محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یاد میں ہوگی ہاں یہ بات ضرور ہے کہ غالب نے بھی صوتی قافیے استعمال کئے ہیں۔ اس طرح ظفر اقبال بھی لفظوں کے ساتھ کھیل جاتے ہیں کہ بھاری بھرکم وہ ہیں اپنے علم کے حوالے سے۔ ایک روز انہوں نے دوچشمی کے حوالے سے ایک قافیہ بنایا۔ میں نے اعتراض کیا اور سند مانگی تو فرمانے لگے میں خود سند ہوں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا جناب آپ غالب کو تو سند نہیں مانتے مگر خود سند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ بھی اس پر محظوظ ہوئے کہ کچھ دن پہلے وہ اپنے کالم میں لکھ چکے تھے کہ غالب کوئی سند نہیں۔ اب دیکھیے قتیل شفائی اور کئی دوسرے شعراء نے پائوں کو پروزن فعلن باندھا ہے مگر غالب نے دیوان غالب میں 13 مرتبہ اسے فعل وزن پر باندھا ہے۔ ابھی وزن کا پہلے تو بہت خیال کیا جاتا تھا: اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن یہ نوک جھونک کوئی نہیں۔ اساتذہ میں بھی یہ سب چلتا تھا اور یہ صحت مند رویہ ہے اصل بات یہ ہے کہ تنقید ہو تنفیص نہ ہو۔ آپ نے آب حیات میں مرزا عظیم بیگ اور انشا کا واقعہ تو پڑھا ہوگا۔مرزا عظیم بیگ نے ایک غزل پھڑی تو کچھ اشعار بحررجز کی بجائے بحر رمل میں جا پڑے۔ اب انشاء تو تھے ہی شرارتی انہوں نے ایک مخمس پڑھی: گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے کہو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل کر چلے اتنا بھی اپنی حد سے نہ باہر نکل جا بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے پھر گھر جا کر مرزا عظیم نے بھی کمال جواب لکھا: مو ضونی و معانی میں پایا نہ تم نے فرق تبدیل بحر سے ہوئے بحر خوشی میں غرق روشن ہے مثل مہر یہ از غرب تابہ شرق شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے پھر یوں ہوا کہ آخری دو مصرعے یوں مقبول ہوئے کہ اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر بن گئے: گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے اور آخر میں استفادہ: بحر رجز میں ہوں نہ بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں